تحریر : اے بی مجاہد ہمارا مقدس دین اسلام معاشرتی امن و سلامتی کا مبلغ دین ہے ۔اسلام کے مقدس پیغام میں امن وسلامتی پر مبنی سماجی اقدار کے تحفظ کی سختی سے تاکید کی گئی اور ہر انسان کے جان ومال کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔اسلام معاشرتی مساوات اور سماجی انصاف کا درس دیتا ہے اسلام کے لغوی معنی بھی سلامتی کے ہیں اور مسلمان پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ وُہ تمام انسانوں کے جان ومال اور ان کے عقائد ورسومات کا احترام کرے ۔صحیح مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے معاشرے کے دوسرے افراد محفوظ وسلامت رہیں۔اسلام اور قرآن کی تعلیمات کیمطابق کسی ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے ،اسلامی نقطہ نظر سے ہمسائے کے ضمن میں مذہب کی قطعاً کوئی تمیز وتفریق روا نہیں رکھی گئی اور فرمایا گیا کہ ہمسائے کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب یا مسلک سے کیوں نہ ہواس کی جان ومال کی حفاظت مسلمانوں پر لازم اور واجب ہے ۔اس طرح اسلام میںمضبوط سماجی بندھن استوار کرنے کے لیے یکجہتی اور ہم آہنگی کے سنہری اصول متعین کیے گئے۔گزشتہ دنوں لاہور میں عیسائی برادری کے دو چرچوں پر خود کش حملوں کے بعد پیدا ہونے والی افسوسناک وغمناک صورتحال کا تقاضا ہے کہ اسلامیان پاکستان کو یہ سمجھایا جائے کہ ہمارے پیارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حرمت اور ان کے جان ومال کے تحفظ کے لیے بنیادی احکامات صادر فرمائے کہ جن کی پابندی ہر مسلمان پر واجب ولازم ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کرام کو ہمیشہ یہی ہدایت فر مائی کہ لوگوں کو اچھائی کا راستہ صراط مستقیم اختیار کرنے اور برائیاں چھوڑنے کی تقلین کیا کرو ۔تاریخ طبری میں ہے کہ آنحضور صلعم نے اپنے ایک صحابی حضرت عمر و بن حزم کو ایک ہدایت نامہ دیا تھا جس میںتعصب کے نعرے بلند کرنے کو ممنوع قرار دیا اور یہ حکم بھی دیا کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ اسلام قبول نہ کریں ان کے حقوق بھی مسلمانوں کے مطابق ہوں گے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابی حضرت معاذ بن جبل کویمن روانہ کرتے ہوئے بھی اسی نوعیت کا ہدایت نامہ دیا تھا ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہادی برحق، پیغمبرآخرالزمان اور رسول خدا ہونے کے ساتھ دنیا کے نقشے پر قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست ”یثرب” مدینہ کے پہلے حکمران اور فرماں روا تھے اور آپ دنیا کی پہلی منظم اسلامی حکومت کے سر براہ اور اسلامی فوج کے پہلے سپہ سالار بھی خود تھے۔ دنیا کی پہلی اسلامی حکومت کا انتظام و انصرام براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے پاس تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی نقطہ ء نظر سے انسانی اقدار کی بناء پر مسلم ملت کی تیاری کا خود آغاز فر مایا اور مسلمانوں کی رو حانی اور معاشرتی تربیت کے لئے مسجد نبوی کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر ہمہ گیر اصلاح اور تربیت و تعلیم کا آغاز فر مایا۔
دنیا کی پہلی اسلامی مملکت کے حاکم اعلیٰ کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی ریاست کا سب سے پہلا دستور مرتب فر مایا جسے” میثاق مدینہ ”کا نام دیا جاتا ہے ۔دنیا بھر کے غیر مسلم مفکر اور علم سیاسیات کے اساتذہ بھی میثاق مدینہ کو دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور العمل تسلیم کرتے ہیں۔ میثاق مدینہ کی 48شقوں میں سے شق نمبر 13کے مطابق تمام تقویٰ شعار مومینن اور دوسرے شہری متحد ہو کر ہراس شخص کی مخالفت کریں گے جو سر کشی کرے ،جو ظلم گناہ اور تعدی کے ہتھکنڈوں سے کام لے اور فساد پھیلائے۔ ایسے شخص کی مخالفت میں تمام ایمان والے ایک ساتھ اٹھیں گے گرچہ وہ شخص ان میں سے کسی کا بیٹا اور بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ شق نمبر 14کے مطابق اللہ تعالیٰ کا ذمہ یعنی پناہ سب کے لئے یکساں ہے۔ ادنیٰ ترین مسلمان بھی کافر کو پناہ دے سکتا ہے ۔ شق نمبر 16کے مطابق یہودیوں میں سے جو شخص بھی اسلامی ریاست کے قانون کی اتباع کرے گا تو اسے بھی مدد میں مسادات حاصل ہوگی اور ان یہودپرنہ تو ظلم کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے کسی دشمن کی مددکی جائے گی ۔ شق نمبر 21کے مطابق جو شخص کسی شہری کو نا حق قتل کرے گا ،تو اسے مقتول کے عوض بطور قصاص قتل کیا جائے گا ۔ الایہ کہ اس مقتول کے ولی اس کے عوض خون بہا لینے پر رضا مندہوں۔
ALLAH
تمام اہل ایمان قاتل کے خلاف ہوں گے ۔ شق نمبر 22کے مطابق کسی ایمان والے کے لئے جو اس دستور العمل کے مندرجات کی تعمیل کا اقرار اوربیعت رسول کر چکا اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے یہ ہر گز جائز نہ ہوگا کہ وہ اس دستور العمل میں کوئی نئی بات نکال کرفتنہ انگیزوں کی حمایت کرے یا انہیں پناہ دے ایسا کرنے والہ اللہ کی لعنت اور اس کے غضب کا مستوجب ٹھہرے گا ۔ نہ اس کی تو بہ قبول کی جائے گی نہ کوئی فدیہ لیا جائے گا َ َ شق نمبر24کے مطابق اسلامی ریاست کے تمام شہری بشمول یہودی اور دوسرے غیر مسلم اس وقت مومینن کے ساتھ مل کر مصارف اٹھائیں گے جب جنگ ہوگی۔ شق نمبر 25سے شق نمبر 36تک یہودیوں اور دوسرے غیر مسلموں کو مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے مگر ان سب پر اس دستاویز کی وفا شعاری لازم ہوگی ۔شق نمبر 37 میں قرار دیا گیا کہ اس صحیفہ د میثاق مدینہ کی اطاعت کرنے والوں کے خلاف جو بھی جنگ کرے گا تو مدینہ کے تمام شہری یہودی اور مسلمان سبھی ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور پورے خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں گے ۔ان سب کا شیوہ میثاق مدینہ کی اطاعت اور ریاست مدینہ سے وفا داروں کاہوگا ان میں سے کوئی عہد شکنی نہیں کر ے گا ۔اور سب مل کر ہرمظلوم کی ہر حال حمایت اور مدد کریں گے۔ شق نمبر 38کے مطابق جنگ کی صورت میں یہودی اور دوسرے غیر مسلم شہری بھی مومنین مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کے مصارف اٹھائیں گے۔ شق نمبر 39میں قرار دیا گیا کہ حدود یثرب مدینہ کا داخلی علاقہ” جوف” سب کے لئے حرم کی حیثیت رکھے گا۔ شق نمبر 40میں قرار دیا گیا کہ پناہ گزین پناہ دھندہ کی مانند ہے نہ کوئی اس کو ضرر پہنچائے گا اور نہ ہی کوئی عہد شکنی کر کے گنا ہکار بنے گا ۔میثاق مدینہ کی شق نمبر 42میں قرار دیا گیا کہ اگر اس کی اطاعت کرنے والوں میں کوئی نئی بات پیدا ہو جس کا اس تحریری دستاویز میں ذکر نہ ہو یاکوئی جھگڑا جس سے نقصان اورفساد کا اندیشہ ہو تو اس متنازعہ امر کے فیصلہ کے لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔
شق نمبر 44میں قرار دیا گیا کہ اگر یثرب (ر یاست مدینہ ) پر حملہ ہوتو حملہ آور کے مقابلہ کے لئے سب شہری یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ شق نمبر 47میں قرار دیا گیا کہ قبیلہ اوس کے یہود کو خواہ موالی ہوں یا اصل ان کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اس تحریر کے ماننے والوں کو حاصل ہوں گے اور وہ بھی اس صحیفہ والوں کے ساتھ خالص وفا شعاری کا بر تائو کریں گے۔ شق نمبر 48میں قرار دیا گیا کہ یہ نوشتہ کسی ظالم یا مجرم کو اس کے عواقب سے بچانے کیلئے آڑے نہ آئے گا ۔مدینہ کے تمام شہری امن کے حقدار رہوں گے مگر وہ لوگ اس سے مثتثنیٰ ہوں گے جو ظلم یا جرم کے مرتکب ہوں اور جو اس نوشتہ کی وفا شعاری اور مکمل احتیاط سے تعمیل نہیں کریں گے ۔میثاق مدینہ کی دستاویز ریاست میں بسنے والے مختلف لوگوں کے درمیان ایک تحریری معاہدہ تھا جو تمام فریقوں کے اتفاق رائے سے طے پایا۔ یہ ایک تحریری آئن اور دستور تھا جسے پہلی اسلامی ریاست مدینہ کے مقتدر اعلیٰ یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود منظور اور نافذ فر مایا اور ریاست کے تمام قبائل اور افراد پر اس کی پاپندی لازم قرار دی گئی اور قرار دیا گیا کہ جو فر دیا قبیلہ اس کے خلاف بغاوت کرے گا وہ ریاست مدینہ کی شہریت کے جملہ حقوق سے محروم کر دیا جائے گا۔
Book
نامور اسلامی مفکر ڈاکٹر حمید اللہ اپنی کتاب ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جلد 3کے صفحہ 196پر لکھتے ہیں کہ میثاق مدینہ کی دستاویز صرف ایک معاہدہ ہی نہیں تھا بلکہ یہ دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور تھا اور مدنی ریاست کے اس دستور کی پاپندی ریاست کے ہر شہری پر لازم قرار دی گئی ۔میثاق مدینہ کو پروفیسرمنٹگمری اور واٹ سمیت تمام مسلم وغیر مسلم مور خین دنیا بھر کی اقوام کے لئے ایک قابل تقلید دستوری نمونہ قرار دیتے ہیں۔ اس دستور کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کسی شخص اور قبیلہ کے کسی حق کوغصب نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی شہری پر مذہبی عقیدہ کے لئے کوئی جبر کیا گیا اور نہ ہی ان کے معاشرتی رسوم و رواج کو چھیڑ ا گیا نہ ہی ان کے نجی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت بے جا کی گی بلکہ اس تحریری دستور میں یہودیوں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروںکے حقوق کے تحفظ کے لئے متعدد دفعات شامل کی گئیں۔ جن کا مقصد یہ تھا کہ یہودی اور دوسرے غیر مسلم شہری اپنے اپنے مذہبی عقائد کے سلسلے میں آزاد ہوں گے اور ان کی عبادات اور رسم در واج میں قطعاً کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ بلکہ ان کی سیاسی و تمدنی ہستیوں کو مکمل تحفظ حاصل رہے گا ۔اگر کوئی ان پر حملہ آورہو گا تو مسلمان مومن بھی ان کے ساتھ مل کر ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے کر دار ادا کریں گے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نافذ العمل دستور مجریہ 1973 ء کے ابتدائیہ میں بھی پوری صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اس امر کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کر سکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔ تمام شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں قانون اور اخلاق عامہ کے تابع حیثیت اور مواقع میں مساوات ،قانون کی نظر میں برابری ،معاشرتی ،معاشی اور سیاسی انصاف اور خیال اظہار، عقیدہ دین ،عبادات اور اجتماع کی آزادی شامل ہوگی ۔جس میں اقلیتوں اور پسماندہ اور پست طبقوں کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا ۔۔ 1973ء کے آئین میں درج یہ تمہیدبھی آنحضور کے نافذ کردہ میثاق مدینہ کی روح کے عین مطابق ہے اس لئے اس میں میثاق مدینہ کے الفاظ کا اضافہ کیا جانا بھی مناسب اور ضروری ہے ۔تاکہ وطن عزیز کو جنونی مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عذاب ہائے سے نجات دلائی جا سکے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر اور غیر مسلم اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر خود کش حملوں کے مستقل سدباب کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لئے پاک افواج اور دوسرے سیکورٹی اداروں کو مکمل فری ہینڈ دینے کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تمام اسلامی مکاتب فکر کے علماء وطن عزیز کے شہریوں کو میثاق مدینہ کے فلسفہ سے آگاہ کریں تاکہ ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور شہری یکجہتی پر مبنی مثالی معاشرہ تشکیل پا سکے۔
اس سلسلے میں عوامی آگاہی مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے ۔ کیونکہ اگر سادہ لوح مسلمانوں اوردوسری مذہبی اقلیتوںکو قرآن مجید ، انجیل مقدس ، توریت اور زبورسمیت تمام الہامی کتب کی تعلیمات کے مطابق معاشرتی اور سماجی اقدار سے آگاہ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پر امن مثالی معاشرہ تشکیل نہ پا سکے ۔اس سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ ہماری حکومتیں میثاق مدینہ کو تمام تعلیمی کلاسز کے نصاب کا لازمی حصہ بنائیں تاکہ ہم اپنی نئی نسل کو سر کا ر مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نظام حکومت کی کلیدی اساس سے روشناس کرا کر مذہبی اور فرقہ ورانہ تعصبات کی آگ کے شعلے بھڑ کانے والے جنونی انتہا پسندوں کے بارے میں عوامی سطح پر پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کر سکیں ۔ اگر ہماری حکومتیں ، ادارے اور صاحب ثروت افراد خصوصاً تبلیغ اسلام کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں میثاق مدینہ کی تاریخی دستاویز کو آسان اور عام فہم الفاظ میں پمفلٹ یاپاکٹ سائز کتابچہ کی شکل میں شائع کر کے ملک کے کونے کونے میںاس کی تقسیم کا اہتمام کریں تو اسکے فوری مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔اور جنونی انتہا پسندی کا بھی سدباب ہوگا ۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر الہیٰ فریضہ ہے ۔جسے اداکرنا ہر عاقل و بالغ مسلمان پر لازم اور واجب ہے۔
آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہم اپنے آقا و مولااور ہادی برحق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات ،تعلیمات اور سیرت طیبہ کو ہر عام و خاص تک پہچانے کے لئے یہ الہیٰ فریضہ پورے ایمانی جوش و جذبے سے ادا کریں گے اور گمراہ افراد کی اصلاح کر کے اور انہیں قرآن مجید کی بتلائی ہوئی صراط مستقیم پر لا کر اپنے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ”میثاق مدینہ”کی حقیقی روح کے عین مطابق مثالی اورپُرامن مملکت بنائیں گے تاکہ ریاست کے ہر شہری کی جان ومال محفوظ ہو اور ہمارا پاک وطن امن و سلامتی کے گہوارے میں بدل جائے۔ اگر ظالمان گروہ سادہ لوح نو جوانوں کی برین واشنگ کر کے انہیں مرنے مارنے والے جنونی دہشت گرد بنا سکتے ہیں تو ہماری حکومتیں ، ادارے اور سول سو سائٹی بھی ایک منظم تحریک چلا کراپنی نئی نسل کی ذہنی اور فکری نشوونمااورتربیت و رہنمائی کر کے انہیں اچھا انسان ، مثالی شہری اور امن سلامتی کے پیامبر دین اسلام کا سچا پیروکارصیحح مسلمان بنا سکتی ہے۔ اس لئے ہمیں مثبت اور تعمیری انداز میں جامع منصوبہ بندی کے ساتھ فاتح عالم قوم تیار کرنے کے لئے یاد گار کردار ادا کرنا ہوگا ۔اور وطن عزیز کو ہمہ قسمی عصبیتوں ،منافرتوں اور جنونی انتہا پسندی سے پاک کرنا ہو گا۔