تحریر : اکرم نور چکڑالوی صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور صحافی معاشرے کی آ نکھ کہلاتا ہے اگر آنکھوں کو دیکھنے سے روک دیا جائے اور آنکھیں زبردستی بند کر دی جائیں تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے جس کی عملی تصویر آج کل سٹی ہسپتال تلہ گنگ پیش کر رہا ہے کیوں کہ سٹی ہسپتال تلہ گنگ میں بطور ایم ایس تعینات ڈاکٹرطاہر زمان نیازی صاحب نے اپنے شاہانہ مزاج یا پھر ہسپتال میں ہونے والی کاروائیوں کوچھپانے کے لیے ہسپتال کے عملے کو یہ فرمانِ شاہی جاری کر رکھا ہے کہ ہسپتال میں کسی بھی صحافی کو کسی حادثے کی کوریج کرنے کی اور تصاویر وغیرہ کے ذریعے ہسپتال کے کسی بھی مسئلے کو اجاگر کرنے نہ دیا جائے جس کی وجہ سے اب حالت یہ ہے کہ اگر کوئی صحافی مسائل کی ماجگاہ بنے سٹی ہسپتال تلہ گنگ کے کسی مسئلے کو اجاگر کرنے کی یا تصاویر لینے کی جسارت کرے تو ہسپتال کا عملہ اس کے ساتھ دست وگریبان ہونے سے بھی گریز نہیں کرتا جبکہ اس حوالہ سے ایم ایس صاحب کا احکامِ شاہی یہ ہے کہ کسی بھی صحافی کو اگر سٹی ہسپتال میں کسی حادثے کی یا کسی مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے تصاویر لینی ہیں تو اسے سب سے پہلے مجھ سے اجازت لینی ہو گی۔
ایم ایس صاحب کے بقول ہسپتال ہمارا گھر ہے اور ہم اس میں بغیر اجازت تصویر کسی بھی صحافی کو نہیں لینے دیں گے جبکہ سٹی ہسپتال تلہ گنگکی حالت یہ ہے کے گزشتہ کافی عرصہ سے مسائل کی آماجگاہ بناہوا ہے اور شہریوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے سابق وزیر اعلی پنجاب چودھری پزویر الہی کے دورِ حکو مت میں تعمیر ہونے والا اتنی بڑی عمار ت کا مالک سٹی ہسپتال تلہ گنگ کی اب حالت زار یہ ہے کہ ایک روپیہ کی ٹافی تک خریدنے پر بھی حکومت کو ٹیکس ادا کرنے والی غریب عوام کو سٹی ہسپتال تلہ گنگ میں سہولت نام کی کوئی چیز میسر نہیں حالات کے ستائے ہوئے غربت کے مارے مجبور مریضوں سے تمام ادویات اکثر باہر کے میڈیکل سٹور سے ہی منگوائی جاتی ہیں اب سوچنے کی بات یہ کہ کیا حکومت کی طرف سے ہسپتال کو کوئی ادویات فراہم نہیں کی جاتیں؟۔
کیا حکومت نے ہسپتال اپنی بے عزتی کروانے کے لیے بنا رکھا ہے ؟ یا پھر سٹی ہسپتال تلہ گنگ میں آنے والی ادویات غریب عوام تک پہنچنے ہی نہیں دی جاتیںاور نوٹ کمانے کے چکر میں کہیں اور ہی بھیج دی جاتیں ہیں باہر کے میڈیکل سٹور مالکان سے کوئی مک مکا کر رکھا ہے کہ مریض سرکاری ادویات تمہاری حالانکہ سٹی ہسپتال کی نسبت ٹی ایچ کیو ہسپتال تلہ گنگ میں عوام کو ادویات اور دیگر صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں اور غریب لوگوں نے بھی اب سٹی ہسپتال کے بجائے ٹی ایچ کیو ہسپتال کا رخ کرنا شروع کر رکھا ہے مگر سٹی ہسپتال تلہ گنگ میں آنے والی ادویات کہاں جاتیں ہیں اس بات کا جواب تو سٹی ہسپتال کے ایم ایس صاحب یا عملہ ہی بہتر دے سکتا ہے۔
Talagang City Hospital
سٹی ہسپتال میں آنے والے اکثر غریب مریض و زخمی یا ان کے ساتھ آنے والے لواحقین مشکل سے ہی ہسپتال تک آنے کا خرچہ برداشت کرتے ہیں اور وہ بے چارے اس حالت ہی میں نہیں ہوتے کہ وہ ادویات باہر سے خرید سکیں کیوں کہ سرکاری ہسپتالوں خصوصا سٹی ہسپتال کی حالتِ زار سے کون ہے جو واقف نہیں اب اس کے باوجود بھی ہسپتال کا رخ وہی کرے گا جو بیچارہ پرائیویٹ ہسپتال سے علاج کروانے کی استطاعت نہیں رکھتاہو گا اب ادویات باہر کے میڈیکل سٹور سے جیسے تیسے خرید لانے والے ان علاج کی غرض سے آنے والے مریضوں اور ان کے ساتھ آنے والے افراد کو سہولیات کے فقدان اورادویات کے فراہم نہ کیے جانے اور جدید مشینوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پریشانی کا اور دیگر کئی پریشانیوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور مرحلہ مطلب سٹی ہسپتال تلہ گنگ کے سیاسی آشیر باد سے تعینات ہونے والے ایم ایس صاحب کے منظورِ نظر ہسپتال کے عملہ کی جھڑکیاں بد تمیزیاں اور باتیں برداشت کرنے کادرپیش ہوتا ہے عوام کے مطابق ہسپتال کا عملہ اول تو گھنٹوں مریض کو چیک کرنے کی ہی زحمت گوارہ نہیں کرتا۔
اگر کوئی منہ میں زبان رکھنے والا شہری ان کو کچھ بولنے کی جسارت کر بیٹھے تو اس کی شامت آجاتی ہے جھڑکیاں بد تمیزی اور لڑائی مطلب عملہ اس کو چھٹی کا دودھ یاد دلا کر ہی اس کی جان بخشی پر راضی ہوتا ہے اب حالات کا ستایا ہوا بیچارا غریب ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کرنے سے تو رہا اس لیے عملے کو کھلی چھٹی ہی ہے کہ جو دل چاہے کرو کون سا کوئی پوچھنے والا ہے یاا ن کی کوئی سننے والا ہے اب ان سب باتوں کے بعداور مسائل پر بات کرنے کے بعد کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جن کو مہذب زبان میں غیر اخلاقی حرکات کہا جاتا ہے کو تحریر میں لانا مناسب نہیں۔
حالانکہ ان حرکات کی وجہ سے واقعی ہی سٹی ہسپتال جیسے قابلِ عزت ادارے کی کافی جگ ہنسائی ہو چکی ہے مگر میں ان باتوں کا ذکر کیے بغیراتنا کہوں گا کہ جہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہو جہاں کے ارباب و اختیار نے بھی سب جانتے ہوئے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہو وہاں معاشرے کی آنکھ کہلانے والے طبقے مطلب صحافیوں کے ہسپتال میں داخلے پر پابندی اور ہسپتال کے عملہ کو ان کو روکنے کے ہدایت جاری کرنا کوئی عجیب بات نہیں ہو گی کیوں سٹی ہسپتال تلہ گنگ اس وقت آوے کا آوہ ہی بگڑا ہے کی عملی تصویر پیش کر رہا ہے۔
Talagang Hospital
سونے پہ سہاگہ یہ کہ تلہ گنگ کی غریب عوام پر ایک اور عذاب سٹی ہسپتال میں اپنے منظور نظر لوگوں کو ٹھیکہ دے پارکنگ فیس کے نام پر انٹری فیس کی صورت میں مسلط کر دیا گیا ہے کہ اگر کوئی غریب پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے کسی مریض کو علاج کی غرض سے دور دراز کے کسی گائوں سے سٹی ہسپتال تلہ گنگ لے ہی آئے تو سب سے پہلے سٹی ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے پارکنگ فیس کے نام پر لی جانے والی انٹری فیس ادا کرنی پڑے گی اب چاہے وہ دس بیس روپے اس کی جیب میں ہوں یانہ ہوں وہ مریض یا زخمی کو ہسپتال لانے کے لیے گاڑی کا کرایہ بھی مانگ کر آ رہا ہو یا پھر مریض تڑپ رہا ہو یا اس کی حالت غیر ہو رہی ہو اور پاکنگ فیس کی پرچی لیتے لیتے مریض کی زندگی کی پرچی کٹ جائے ہو مگر سٹی ہسپتال میں داخلے کاکا راستہ اس کے لیے تب ہی کھلے گا جب وہ پارکنگ فیس کے نام پر لی جانے والی انٹری فیس ادا کرے گا اب ان ساری باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایم یس صاحب کے احکامات کی سمجھ آسانی سے آ جاتی ہے کہ ان حالات کے بعدصحافیوں کے داخلے پر پابندی ان اور ان کو میڈیا کوریج سے روکنے کے احکامات دینا تو بنتے ہی ہیں کیوں کے اگر یہ سب حقائق اخبارات کی زینت بن گئے اوران سب باتوں کا حکام بالا کو علم ہو گیا۔
یہ باتیں عوام کی عدالت میں پیش ہونے لگیں اور کسی نے ایکشن لے لیا تو ایم ایس صاحب بہادر کی بادشاہت تو ختم ہوتے پتہ بھی نہیں چلنااور اس لیے شاید یہ احکامات جاری کیے گئے ہیں اب ان ساری باتوں کے بعد اور سٹی ہسپتال کی حقیقی تصویر پیش کرنے کے بعد ڈی ڈی ایچ او تلہ گنگ ای ڈی او ہیلتھ چکوال ڈی سی او ہیلتھ چکوال سیکرٹری ہیلتھ پنجاب اور وزیر اعلی پنجاب سے صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ تلہ گنگ سمیت پورے پاکستان میں من پسند لوگوں کو نوازنے کا سلسلہ تو گزشتہ کافی عرصے سے جاری ہے مگر تھانہ کچہری کا نام سنتے ہی پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اور بے عزت ہونے کے ڈر سے کانپ اٹھنے والی غریب عوام پر ہسپتالوں میں اس طرح ایم ایس تعینات کر کے بے لگام اور تمیز سے عاری عملہ مسلط کر کے وہاں پر ہونے والی غیر اخلاقی حرکات کا نوٹس نہ لے کر اورپارکنگ فیس کے نام پر انٹری فیس وصول کر کے سرکاری ہسپتالوں خصوصا سٹی ہسپتال تلہ گنگ کا راستہ بند نہ کیا جائے۔
بجائے صحافیوں کو حقیقت بیان کرنے سے روکنے کے اور ان پر ہسپتال کے دروازے بند کرنے کے ایم ایس سٹی ہسپتال اور عملے کا قبلہ فل الفور دست کیا جائے اور سٹی ہسپتال کو پارکنگ فیس سے منشی قرار دیا جائے تو یقینا منگائی کی چکی میں پسنے والی اور لوڈشیڈنگ اور دہشتگردی جیسے عذابوں کو سہنے والی عوام بے ڈھرک ہو کر کام سے کام سٹی ہسپتال اور اس جیسے دیگر سرکاری ہسپتالوں میں تو جا سکے گی اور اس کو صحت کے حوالے سے کچھ تو سہولیات میسر آئیں گی۔