تماشہ کے تمام گُن کی شروعات اس شعر سے کرتے ہیں کیونکہ یہ ”تماشہ” کا لفظ ہم نے نہیں کہا بلکہ وزیرِ داخلہ صاحب نے اپنے زبان سے ادا کرکے تمام اپوزیشن والوں کو ایک اور تماشہ کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ ویسے تو ہمارے یہاں تماشہ ہی تماشہ لگا ہوا ہے، کس کس تماشے کو روئیں۔
بزائچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے
ویسے تو ” تماشہ ” کے لغوی اور ڈکشنری کے معنی کھیل کود، بازی گری اور تماشہ دکھانے کے ہوتے ہیں مگر ہماری عوام بھی خوب ہیں جو روز و شب، ہر دن، ہر وقت، ہر گھڑی ان تماشوں میں الجھے رہتے ہیں۔ پہلے تو عوام کو دال دلیہ کو مہنگا کر کے تماشے میں لگا دیا گیا، پھر لوڈ شیڈنگ کا تماشہ تو لگا ہی ہوا ہے۔ آج زوروں پر ٹھنڈ ہے اور میڈیا پر بجلی کی پیداوار اور خرچ دونوں ہی برابر دکھایا جا رہا ہے۔ سونے پر سوہاگہ کڑکتی سردی میں جہاں اربوں ٹھنڈی ہوا دینے والی مشینیں بند پڑی ہیں حتیٰ کہ لوگوں کے گھروں میں پنکھا تک بند ہے ، پھر بھی دو دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے’ یہ عوام کے لیئے تماشہ نہیں تو اور کیا ہے۔ بے روزگاری کا المیہ اس قدر پروان چڑھ چکا ہے کہ غریب کے بچے حلال ملازمت کے لیئے ترس رہے ہیں، ہاتھوں میں ڈگریاں تو ہیں مگر ملک میں نوکریاں نہیں ہیں۔
اُس پر تماشہ یہ کہ بیروزگاری کی قلت کو دور کرنے کے لیئے قرضہ اسکیم شروع کیا گیا، مگر کیا کہنے ہمارے ارباب کے کہ فارم بنانے والوں نے اتنی کڑی شرائط لگا دی کہ ایک آدمی کو قرضہ کسی صورت مل ہی نہیں سکتا۔ دو گواہ سولہ یا اُس سے اوپر کے گریڈ والے آفیسر صاحبان کے، اور ایک ضامن جسے اپنا بینک اسٹیٹ منٹ بھی درخواست گزار کے فارم کے ساتھ جمع کرانا ہوگا، بھلا ایک غریب آدمی کے لیئے کوئی کیوں اپنا بینک سلپ لگائے گا۔ اُسے تو خود ہی انکم ٹیکس کے ریٹ پڑنے کا ڈر ہے تو وہ بھلا کیوں پرائی آگ میں کودنے کی جسارت کرے گا۔ کسی نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام اَپ لوڈ کیا ہے کہ ” وزیراعظم صاحب ہم نے تو آپ کو ووٹ بغیر کسی ضامن کے ہی دیا تھا پھر آپ کے قرضہ اسکیم میں ضامن کا خانہ کہاں سے آگیا۔
ابھی نئی حکومت کو وجود میں آئے چند ماہ ہی ہوئے ہیں اور مہنگائی اس قدر ہو گئی ہے کہ غریبوں کا جینا مشکل ہو چکا ہے۔ پھر ڈالر اپنے انتہائی عروج پر ہے اور ہماری کرنسی انتہائی کسمپرسی میں۔ چند روز پہلے ہی ہمارے خوبصورت وزیرِ خزانہ صاحب نے یہ بیان داغ دیا کہ ڈالر کی عروجیت ختم ہونے کو ہے لہٰذا ڈالر کا کھلّا کرا لیا جائے۔ میرے بھائی! غریبوں کے پاس اپنی کرنسی نہیں ہے کہ جس سے وہ اپنے بیوی بچوں کا مکمل طور پر پیٹ بھر سکیں ڈالر کہاں سے آئے گا۔ بہرحال جن کے پاس ڈالر ہوگا انہوں نے ضرور اس اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہو گا۔
Dollar
ویسے تو آج دن تک ڈالر کے پرانے اور نئے ریٹ میں غالباً پچیس سے تیس پیسے کا ہی فرق دیکھنے میں آیا ہے۔ اور اس فرق کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بیان بھی ایک تماشہ ہی ہے۔ بلدیات کے محکمے کا آج بُرا حال ہے۔ مگر بلدیاتی الیکشن ہو کے ہی نہیں دے رہے، اور روزانہ ترمیمی بل ہی لائے جا رہے ہیں۔ بلدیاتی ملازمین کئی کئی مہینوں کے تنخواہوں سے محروم ہیں اور سب اچھا ہے کہ فارمولا ہنوز جاری ہے۔ بھائی الیکشن کرائو اور نچلی سطح پر فنڈز فراہم کرو تاکہ جو ناگفتہ بہ حالات شہر وں میں اس وقت ہیں ، ہر جگہ گٹر اُبل رہے ہیں، کچرا اُٹھانے والے الگ کئی کئی دنوں تک نہیں آتے، گلی محلوں کے کونوں پر لوگ کچرا ڈالنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے بیماراں پھوٹ رہی ہیں۔ پھر بلدیاتی الیکشن پر روزانہ نِت نئے بیانات تماشہ نہیں تو پھر اور کیا ہے؟
پاکستانیوں کو ہمیشہ سے جمہوری تماشہ بھی دیکھنے کو ملتا رہا ہے ۔ حکومت آتی تو ہے عوام کے ووٹوں سے مگر اس کے بعد حکومت اپنے اپنوں کو نوازنے کی پالیسی پر گامزن ہو جاتی ہے۔ یہی دکھڑا ہے اس ملک کا کہ اپنے اپنوں کو نوازنے کے چکر میں عوام بے چارے چاروں شانے چِت ہو جاتے ہیں۔ یعنی کہ اُن کا کام صرف ووٹ دینا ہے اور بس!اس کے بعد انہیں اپنے لیئے کسی خیر کی توقع نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اُن کے لیئے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہاں! اگر ہوتا ہے تو مہنگائی، دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ، کڑوی گولی، بے روزگاری۔ آپ آخر اِسی پر اکتفا کیوں نہیں کرتے۔ آپ کے لیئے تو یہ سب چیزیں وافر مقدار میں حکمرانوں نے مہیا کیا ہوا ہے۔آزاد عدلیہ کے بادشاہ رخصت ہو گئے یعنی کہ ریٹائر ہو گئے مگر دیکھا جائے تو انہوں نے بھی خوب خوب تماشہ سجایا مگر فیصلہ بہت کم ہی ہو سکا اور اگر کچھ فیصلے ہوئے بھی ہیں تو عوامی مقبولیت سے کوسوں دور رہے۔ اراکینِ پارلیمنٹ یا حکومت کے اس دعوے پر قہقہے لگانے کو دل چاہتا ہے کہ جب وہ کمال سادگی سے کہتے ہیں کہ ہم ” ہم عوام کی نمائندگی کرتے ہیں” حقیقت تو یہ ہے کہ پارلیمان عوام کی نمائندگی ہرگز ہرگز نہیں کرتی کیونکہ یہ سب ”تماشہ”جسے وہ غیر پارلیمانی لفظ کہتے ہیں اُس پر تماشہ لگا سکتے ہیں مگر کوئی عوامی ایشو پر ہرگز ایکشن میں نظر نہیں آتے۔
ایک” تماشہ ”اور ہمارے یہاں بہت دیکھنے میں آتا ہے یعنی کہیں کچھ بھی ہو اُس کا احتجاج ہمارے ملک میں ضرور کیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں کچھ ہو جائے تو اُس کا احتجاج ہمارے ملک میں، عراق و افغانستان میں کچھ ہو جائے تو اُس کا احتجاج ہمارے ملک میں، کبھی عوامی ایشو پر اتنا پُر زور احتجاج دیکھنے میں نہیں آتا۔ملک ہر لمحہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے مگر جلوسوں کا سلسلہ پورے ملک میں ہر ہر موقعے پر عروج پر ہوتا ہے۔ جہاں سیکوریٹی کی فراہمی بھی انتہائی مشکل ہوتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہر موقعے کے لیئے ہر مسلک کے ماننے والوں کے لیئے جگہ متعین کر دیا جائے تاکہ وہ اس احاطے میں ہی تمام کام انجام دیں اور وہاں پر سیکوریٹی فراہم کرنے میں بھی آسانی ہوگی اور عوام کی زندگی بھی اجیرن ہونے سے بچ جائے گی۔جہاں دیکھو ٹریفک کا اژدھام، راستے بند، ایک تو نوکری ملتی نہیں اور جن کی روزی روٹی لگی ہوئی ہے انہیں آنے جانے میں شدید دشواریوں کا سامنا ۔ ایسا قانون لایا جائے کہ جس کے ذریعے آپ بھی خوش رہیں اور عوام بھی خوش۔ مگر یہ سب معاملے کو لاگو کرنے کے لیئے بڑا دل و جگر چاہیئے ، بات وہیں پر آکر رُک جاتی ہے کہ ” بلی کے گلے میں رسّی باندھے کون؟
عنبرین جاوید صاحبہ کی ایک مضمون پڑھنے کا موقع ملا جن میں سے چند لائینیں پیش کیئے دیتا ہوں، وہ کہتی ہیں کہ ایک سیاستدان سے بڑھ کر یہ کوئی نہیں جان سکتا کہ عوام کو کن کن طریقوں سے ختم کیا جا سکتا ہے؟ یعنی کون سی چیز کتنی مہنگی کی جائے تو کتنے لوگ خود کشی کریں گے؟ اور کس چیز کی قلت کر دی جائے تو کتنے قبروں کو سدھارے گیں۔اسی طرح یہ ہیرو بنتے ہیں کیونکہ وہ فلموں میں تو ہیرو بن نہیں سکتے وہ اس لیئے کہ حقیقت میں یہ بالکل زیرو ہوتے ہیں۔ آج سیاستدان یہی کہتا ہوا پایا جاتا ہے کہ:
خدا کے واسطے مجھ کو منسٹری دے دو میرا مزاج لڑکپن سے لیڈرانہ ہے
اب وقت آ گیا ہے کہ تمام ” تماشوں ” کو بند کرکے عوامی ایشوز پر توجہ دی جائے تاکہ ملک اور عوام کا بھلا ہو سکے۔