تحریر: محمد اشفاق راجا سربراہ پاک فوج نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں معصوم کشمیریوں کی قتل و غارت کی شدید مذمت کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ عالمی برادری کشمیری عوام کی امنگوں اور ان کی جدوجہدِ آزادی کو تسلیم کرے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت جنرل ہیڈکوارٹرز راو لپنڈی میں کور کمانڈرز کا اجلاس ہوا، جس میں ملک کی داخلی و خارجی سکیورٹی اور افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر آرمی چیف نے بھارتی فورسز کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ کشمیری نوجوانوں کے سفاکانہ قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی برادری کشمیر کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے میں مددکرے کیونکہ خطے میں دیرپا اور پائیدار امن کے لیے اس تنازع کا حل انتہائی ضروری ہے۔
پاک فوج کی جانب سے عالمی برادری کی توجہ مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب مبذول کرانا جہاں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اقوام عالم کی کوشش سے اس مسئلے کے حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، وہاں یہ مطالبہ اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ فوج مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی حامی ہے اور چاہتی ہے کہ اس سلسلے میں جلد ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ یہ مطالبہ ایک طرح سے عالمی ضمیر کو جگانے کی ایک کوشش بھی ہے، جو صرف اس وقت جاگتا ہے جب مشرقی تیمور اور دارفر جیسا کوئی مسئلہ درپیش ہو اور اس کے بعد لمبی تان کر پھر سو جاتا ہے اور جسے کشمیر اور فلسطین جیسے نصف صدی سے زیادہ عرصے سے سلگتے ہوئے مسائل نظر نہیں آتے۔ دوسری جانب امریکہ ہے، جو خود کو دنیا کی واحد سپر پاور قرار دیتا ہے، لیکن اس کی حالت یہ ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں عرصے سے جاری بھارتی فوج کی دہشت گردی کا نوٹس تک لینے کو تیار نہیں، الٹا اس نے یہ کہہ دیا ہے کہ یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔
امریکہ کا یہ موقف کسی طور درست قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ بھارت کا داخلی معاملہ اس وقت ہوتا جب انسانیت سوز کارروائیاں بھارت کے کسی صوبے میں کی جا رہی ہوتیں’ جموں و کشمیر تو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس پر بھارت کا کوئی حق نہیں، لیکن جس پر اس نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ کشمیری مسلمان گزشتہ 68 برسوں سے اس غاصبانہ قبضے اور بھارتی فوج کے روح فرسا ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، لیکن ان کے احتجاجی مظاہروں کو بھی بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ درندہ صفت بھارتی اہلکار شکار کے لیے استعمال ہونے والی پیلٹ گن سے کشمیری شہریوں کی آنکھوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی فورسز کے مظالم سے کم و بیش 1400 کشمیری زخمی ہو چکے ہیں۔ اکثریت آنکھوں میں چھرے لگنے سے زخمی ہوئی۔ کیا دہائیوں سے جاری کشمیری مسلمانوں کا احتجاج اس امر کا ثبوت نہیں ہے کہ وہ بھارتی استبداد میں نہیں رہنا چاہتے۔
Indian Army Atrocities
کشمیری رہنما بھارتی حکومت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو انہیں بار بار نظربند یا گرفتار کر لیا جاتا ہے’ جیسا کہ بدھ کے روز بھی ہوا۔ سرینگر میں یوم شہدا کے مظاہروں میں شرکت کی کوشش پر سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو گرفتار کر لیا گیا۔ کرفیو کے باوجود کئی مقامات پر مظاہرے ہوئے۔ اننت ناگ میں مظاہرین نے پاکستانی پرچم لہرا دیے۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ بھارتی حکومت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور وہ کشمیریوں کو بالجبر اپنے ساتھ ملائے رکھنا چاہتی ہے’ جس میں وہ کامیاب نہیں ہو پا رہی۔ اور اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بھارت اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد سے ڈرتا ہے تو اس کی ایک ہی وجہ ہے۔ اسے اس بات کا یقین ہے کہ کشمیری عوام اس کے خلاف رائے دیں گے۔
کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ اس کے باوجود اگر عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ اس پر اس مسئلے کے حل کی افادیت واضح نہیں؛ تاہم اس پر واضح رہنا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا اور چونکہ پاکستان اور بھارت، دونوں ایٹمی صلاحیت کی حامل ریاستیں ہیں، چنانچہ کشمیر کا مسئلہ ایک بڑی ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ حق خود ارادیت کے ذریعے ہی مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے’ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جدوجہد اور آواز کو بربریت سے دبایا نہیں جا سکتا۔تجزیاتی رپورٹ بی این پی کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوج کشمیریوں پر ظلم کر رہی ہے، اسلامی تعاون تنظیم کشمیریوں کے غم میں برابر کی شریک ہے۔
Pak Army
علاوہ پاکستان نے بدھ کے روز مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر یورپی یونین اور اسلامی ملکوں کے سفیروں کو بریفنگ دی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستانی قیادت اور او آئی سی نے مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت محسوس کی ہے، لیکن ضروری ہے کہ اس سلسلے میں کوششیں محض وقتی طور پر اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے تشدد کے حالیہ واقعات کے تناظر میں نہ کی جائیں’ بلکہ عالمی برادری کا ضمیر جگانے کی کوششیں مسلسل جاری رہنی چاہئیں۔ پاک فوج کی جانب سے جن کوششوں کا آغاز ہوا ہے، حکومت کو انہیں لے کر آگے بڑھنا چاہیے۔ آزاد کشمیر میں نئے الیکشن ہونے والے ہیں۔
وہاں کی سیاسی جماعتوں کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم اور جبر اور مسئلہ کشمیر کے حل کو اپنے انتخابی ایجنڈوں کا حصہ بنانا چاہیے۔ یہ طے کرنا چاہیے کہ برسراقتدار آ کر وہ اس مسئلے کے حل کے لیے ٹھوس کوششیں اور اقدامات کریں گی۔ یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت آزاد کشمیر میں حالات کو مزید بہتر بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرے کیونکہ جب آزاد کشمیر میں لوگوں کے مالی اور معاشی حالات بہتر ہوں گے تو ہی عالمی برادری پر یہ واضح کیا جا سکے گا کہ جس طرح آزاد کشمیر کے عوام کا خیال رکھا گیا ہے، اسی طرح مقبوضہ کشمیر کے پاکستان کا حصہ بننے پر کشمیری عوام کے لیے تعمیر و ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔