تحریر : عماد ظفر عالمی عدالت برائے انصاف نے کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر حکم امتناعی جاری کیا اور پاکستان و بھارت میں یہ اب تک سب سے زیادہ دیکھی اور پڑھی جانے والی خبر ہے جبکہ ریستوران اور چائے خانوں سے لیکر ٹیلیویژن چینلوں پر اس پر بحث مباحث جاری ہیں.بھارت کا اصرار ہے کہ کلبھوشن کی سزائے موت پر عالمی عدالت برائے انصاف کا حکم امتناعی اس کے اخلاقی و سفارتی موقف کی جیت ہے جبکہ پاکستان کا اصرار ہے کہ عالمی عدالت برائے انصاف نے محض کونسلر تک رسائی دینے کا کہتے ہوئے سزائے موت کو مقدمے کی مزید سماعت تک موخر کرنے کا کہا ہے. بھارت میں جنگی جنون کے خبط میں مبتلا انتہا پسند اسے اپنی فتح قرار دے رہے ہیں جبکہ پاکستان میں جنگی جنون اور فتنہ پسند عناصر اسے حکومت اور دفاعی اداروں کی شکست قرار دے رہے ہیں. جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جب عالمی عدالت برائے انصاف میں گیا تھا تو اسے اچھی طرح سے ادراک تھا کہ وہاں سے کلبھوشن کی سزائے موت دوارے حکم امتناعی جاری ہو جائے گا.
یوں بھی کلبھوشن سے جو معلومات حاصل کرنا تھیں وہ لی جا چکی ہیں اب معاملہ ان بے گناہ افراد کے قتل کا ہے جن میں کلبھوشن یادیو کا ہاتھ شامل رھا اور غالبا عالمی عدالت برائے انصاف اسّں بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اب اس کیس میں مزید رخنہ نہیں ڈالے گی.بے گناہوں کا خون چاہے پاکستان میں بہایا جائے یا بھارت میں دونوں ہی صورتوں میں قابل مزمت ہے. کلبھوشن یادیو ہو یا اجمل قصاب دونوں کو ان کے جرائم کی سزا ملنا چائیے لیکن اب پاک بھارت کو سوچنا ہو گا کہ آخر کب تک ایک دوسرے سے دشمنی اور انتقام کی ضد میں اپنا مستقبل ہتھیاروں کی فضول دوڑ اور جنگی تیاریوں پر رقم خرچ کر کے ضائع کرتے جانا ہے. کلبھوشن یادیو جیسے افراد یا اجمل قصاب جیسے افراد ایک دوسرے کی دھرتی پر بھیجنے کے بھائے اگر محبتوں اور امن کے علم برداروں کو ایک دوسرے کی سرزمینوں پر بھیجا جائے یا علم وآگہی اور تحقیق کرنے والوں کے کاروانوں کو اپنے اپنے ہاں مدعو کیا جائے تو کیا ہی خوبصورت اور دلکش منظر ابھر کر سامنے آ سکتا ہے. امن کی یہ خواہش اپنی جگہ پر لیکن مدعا چونکہ بھارتی جاسوس کا ہے تو اس جانب واپس آتے ہیں.
کلبھوشن یادیو کا یہ مدعا کسی بھی طور پر نہ تو پاکستان کی عالمی و سفارتی محاذ پر شکست کا باعث ہے اور نہ ہی کلبھوشن یادیو کو کوئی کلین چٹ فراہم کی گئی ہے. اس معاملے پر عالمی عدالت انصاف کے حکم امتناعی کو پاکستان کی شکست قرار دے کر اور تنقید کے نشتر برسا کر دراصل ڈان لیکس کے مدعے پر اپنی محروم خواہشات کا بوجھ اٹھائے تجزیہ کار و سیاست دان اس معاملے کی آڑ میں سارا غصہ دفاعی اداروں پر نکالتے دکھائی دیتے ہیں یا پھر وزیر اعظم کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے نظر آتے ہیں. جس بھونڈے طریقے سے جندال اور نواز شریف کی ملاقات کو اس معاملے سے نتھی کیئے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا بوٹ پالشیوں کو لفٹ نہ کروانا اور نواز شریف کا ڈان لیکس کے مدعے سے باآسانی نکل جانا اب ان قوتوں کو ہضم نہیں ہونے پا رہا ہے. کلبھوشن یادیو کے معاملے کی آڑ میں فوج یا حکومت پر تنقید کرنے والے حضرات وہی ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے حکومت کے گھر جانے کی خبریں اور مارشل لا کی نویدیں سناتے نہیں تھکتے تھے. وگرنہ یہ ایک مسلمہ سا اصول ہے کہ فریقین میں سے کوئی ایک فریق بھی اگر کسی عدالت میں کسی فیصلے کے خلاف اپیل کرے تو فوری طور پر وہ عدالت جو کیس سن رہی ہوتی ہے ایک حکم امتناعی جاری کر کے دونوں فریقین کو سنتی ہے.جیسے ہمارے ہاں عدالتوں میں جب کسی فریق کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو وہ فورا اعلی عدلیہ سے رجوع کر کے سٹے آرڈر لے لیتا ہے.یہ سٹے آرڈر نہ تو فیصلے کے خلاف اپیل کرنے والے کی جیت تصور ہوتا ہے اور نہ ہی سٹے آرڈر ملنے سے کسی کا کیس مضبوط ہوتا ہے.
اس کیس میں بھی بات صرف اتنی سی ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کے معاملے پر سٹے آرڈر دیتے ہوئے اس مقدمے کو سننے کا فیصلہ کیا ہے.یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان اگر چاہتا تو اس مقدمے کی سماعت میں پیش ہونے سے ہی انکار کر سکتا تھا جیسا کہ بھارت نے 1999 میں کیا تھا جب پاکستان بھارت کے خلاف ایک طیارہ گرانے کا الزام لیکر عالمی عدالت انصاف گیا تھا تو بھارت نے یہ کہہ کر عالمی عدالت میں پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا کہ عالمی عدالت انصاف کے پاس اس کیس کی سماعت کا دائرہ اختیار نہیں ہے.لیکن بھارت کے برعکس پاکستان نے عالمی عدالت سے چشم پوشی کرنے کے بجائے وہاں جا کر یہ ثابت کیا کہ کلبھوشن کے معاملے پر پہلے بھی اور آئیندہ بھی انصاف کے تمام تقاضے پورے کیئے جائیں گے. اسـں صورتحال میں جب کلبھوشن کا کیس ایک عالمی نوعیت کا مقدمہ بن چکا ہے، ہونا تو یہ چائیے تھا کہ اپنی اپنی نظریاتی یا سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میڈیا پر اس خبر دوارے مباحث کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا جاتا تا کہ کم سے کم اس حساس معاملے پر تو قوم کا ایک موقف سامنے اتا. لیکن اس کے برعکس ہر تجزیہ نگار اور سیاسی جماعت نے اس وقت اپنی اپنی دوکان کھولی ہوئی ہے اور اپنا اپنا چورن بیچنے میں مصروف ہے.
کسی کو منتخب وزیر اعظم بھارت نواز یا بھارتی ایجنٹ نظر آتا ہے اور کوئی موجودہ عسکری قیادت کو منتخب حکومت کے آگے سرینڈر کرنے کے طعنے مارتے دکھائی دیتا ہے. کلبھوشن کے معاملے کو لیکر ایسے شورو غل بپا کیا جا رہا ہے جیسے اسے عالمی عدالت انصاف نے کلین چٹ فراہم کر دی ہو .جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ نہ تو کلبھوشن یادیو کو عالمی عدالت نے بے گناہ قرار دیا ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کسی کاروائی کا آغاز کیا ہے.کلبھوشن یادیو کو پاکستانی عدالت سے سزا ہوئی ہے اور کسی بھی ملک کی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کیلئے عالمی عدالت انصاف کو ثبوتوں کا ڈھیر چاہیے ہوتا ہے.
اس معاملے پر بار ثبوت بھارت کے ذمے ہے اور آگے چل کر جب ثبوت مہیا کرنے کی باری آئے گی تو اس کیس کا فیصلہ سامنے آ جآئے گا. اس لمحے بے وقت کی راگنی گاتے افراد صرف اور صرف کلبھوشن کے معاملے کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت اور اداروں پر ہرزہ سرائی تو کر رہے ہیں لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ کچھ معاملات میں اناؤں اور ذاتی ایجنڈوں سے بالاتر ہو کر سوچنا پڑتا ہے. اس سٹے آرڈر کے بعد اصل مقدمہ تو ابھی شروع ہونا ہے.سیاسی جماعتوں اور شکریہ والے تجزیہ نگاروں کو اطمینان رکھتے ہوئے اور کم سے کم اس مقدمے کا فیصلہ آنے تک انتظار کرتے ہوئے کسی اور مدعے کی آڑ میں جی بھر کر مخالفت اور سیاست کرنی چائیے لیکن عوام کو ایسے معاملات میں مس گائیڈ کرنے سے پرہیز کرنا چائیے.