اتوار کی صبح فیس بک دیکھ رہا تھا توسب سے پہلے 6سال پرانا آج ہی کے دن لکھا ہوا اپنا ایک مضمون سامنے آگیا چونکہ 3 مئی ہے جسے پوری دنیا میں صحافیوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے مجھے اپنی پرانی تحریر اور گذرے ہوئے 6سالوں میں کچھ بھی تبدیل ہوتا ہوا نظر نہیں آیا اگلی پوسٹ پر نظر پڑی تو اسلام آباد میں موجود ایک پرانے دوست حافظ عبدالماجد نے لکھا ہوا تھا کہ جن صحافیوں کو تین سے چھ ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں کیا ان کو بھی آزادی صحافت منانا چاہیے اور ایک چینل نے دس ماہ سے تنخواہ نہیں دی حافظ ماجد سے تعلق تو بہت پرانا ہے مگر دوستی کو تقریبا 20سال ہوگئے ہیں 1992میں جب این این آئی کا آغاز ہوا تو میں بھی بطور رپورٹر اس ایجنسی کا حصہ بن گیا اور پھرمشرف دور میں جب این این آئی کی چیف ایڈیٹری سے حافظ صاحب کو الگ کیا گیا تو حافظ صاحب کے ساتھ میں بھی الگ ہوگیا اور پھر ہم نے میڈیا ون سے کام شروع کردیا حالات نے نازک صورتحال اختیار کی تو حافظ صاحب لاہور آگئے اور پھر تقریبا سال بھر ایک ہی جگہ رہے اس دوران کن کن حالات سے نبرد آزما رہے یادوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا مگرواپس آتا ہوں۔
حافظ صاحب کی پوسٹ کی طرف جہاں وہی پرانا رونا دھونا تھا اب حالات کرونا وائرس کی وجہ سے بھی متاثر ہوئے ہیں مگر لاہور میں الیکٹرانک میڈیا کے ورکروں کی تنخواہوں کے حوالہ سے اتنی بری صورتحال نہیں ہے جتنی ملک کے دوسرے شہروں میں ہے اور اسکے پیچھے میں سمجھتا ہوں کہ ایمرا باڈی بلخصوص آصف بٹ کا کمال ہے خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی انسانوں میں موجود ہوتی ہے اگر صرف خوبیاں ہی خوبیاں ہو تو وہ انسان نہیں ہوسکتا آصف بٹ کی اگر آج کسی جگہ مخالفت ہے تو وہ اسکی خوبیوں کے نیچے دب چکی ہے کیونکہ انہوں نے میڈیا مالکان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ورکروں کو انکا حق دلایا ہے اور اب ایسے صحافیوں کے گھروں میں راشن بھی پہنچایا جارہا ہے جو کرونا وائرس یا بے روزگاری کی وجہ سے حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہیں اگر ایسا ہی لیڈر اسلام آبادمیں ہوتا تو حافظ عبدالماجد کو تنخواہوں کے حوالہ سے پریشانی نہ ہوتی جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو آج ہی کے دن قلم کے مزدوروں کا عالمی دن ہے۔
ویسے توصحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے مگر قلم قرطاس کا مزدور آج بھی رضاکار انہ کام کرنے پر مجبور ہے نسل درنسل اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے باوجود علاقائی صحافی مزدو ر جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں ریاست کے چوتھے ستون کی بنیادی آکائی کے حقوق سلب کرنا ظلم وزیادتی کے مترادف ہے میڈیا اداروں میں کارکن صحافیوں کو عارضی کنٹریکٹ پر رکھا جاتا ہے جبکہ علاقائی صحافیوں کے لیے کنٹریکٹ تودور کی بات انہیں اعزازی طورپر بھرتی کرکے حالات کے رحم کرم پر چھوڑدیاجاتاہے علاقائی صحافی کی کم ازکم تنخواہ ایک مزدور کے برابرطے ہونے سے نہ صرف زردصحافت کا خاتمہ ہوگا بلکہ ریاست کا چوتھا ستون بطور صنعت ابھر کر اہم مقام حاصل کرلے گاپاکستان میں صرف صحافت کا ہی برا حال نہیں ہے بلکہ جس محکمہ یا ادارے کی کارکردگی بھی دیکھی جائے تو وہ صفر ہے پاکستان کو آزاد ہوئے 73سال ہونے والے ہیں اور ہم نے ابھی تک اپنی ترقی کاراستہ تلاش نہیں کیا اگر ہم نے کسی چیز میں مہارت حاصل کی ہے تو وہ دوسروں کی جیب صاف کرنے، لوٹ مار اور دو نمبری میں کی ہے رشوت دینے اور لینے میں کی ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کی ہے۔
ملک کی جڑیں کمزور کرکے عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈال کر دولت کو بیرون ملک لے جانے میں کی ہے اور ان سب لٹیروں کے سیاہ کارناموں کو عوامی خدمت کا درجہ دیکر تحفظ دینے والے ہمارے میڈیامالکان اورانکے حواریوں نے بھی اپنے کام میں مہارت حاصل کی ہے یہی وجہ ہے کہ کل کا ناجائز فروش آج کا صحافی بن کر نہ صرف اپنے آپ کو محفوظ کرچکا ہے بلکہ اپنے جیسوں کا محافظ بھی بن گیا جبکہ رہی سہی کسر اخباری مالکان نے پوری کردی جنہوں نے سیکیورٹی اور فیس کے نام پر علاقائی نمائندوں سے لاکھوں روپے بٹور کر ایسے افراد کو بطور صحافی متعارف کروادیا جن میں سے اکثریت کے پاس پیسہ غیر قانونی تھا اور جب ایسے ایسے بے ضمیرے افراد اپنے آپ کو صحافی کہلانا شروع کردینگے تو پھر باقی اداروں کی طرح شعبہ صحافت بھی کسی گہرے کنویں میں جا گرا ہے۔
اب تو ہر اخبار اور ٹی وی چینلز میں بھی گروپ قبضہ کیے ہوئے ہیں میٹرک پاس ایڈیٹر ہے تو ایم اے پاس نوکری کے لیے سفارشیں ڈھونڈ رہا ہے اب بھی لاہور،کراچی،فیصل آباد،پشاور،کوئٹہ اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں بغیر تنخواہ کے کام کرنے والوں کی بھر مار اور ایسے افراد کو چن چن کر صحافی بھرتی کیا جاتا ہے جو خود کمانا جانتا ہو اور حصہ اوپر بھی پہنچا سکے ایسے افراد کو ہر ادارے اور ہر کلب میں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے کیونکہ وہ کماؤ جو ہوتا ہے اسکے برعکس کام کرنے والے صحافی ہر دور میں اور ہر کسی کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتے ہیں نہ یہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور نہ ہی اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھاتے ہیں اور حکومت بھی ایسے ہی خوش آمدیوں کو نوازتی ہے جو ہر وقت انکی تعریفوں میں لگے رہیں کیونکہ آج صحافیوں کا عالمی دن ہے اسی لیے یہ بات ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ آج کی صحافت ایک بزنس ہے اور جن کے ہاتھوں میں صحافیوں کی ڈور ہے وہ بزنس مین ہیں پاکستانی بزنس مین کبھی بھی گھاٹے کا کام نہیں کرتا اسے نہ تعلیم سے غرض ہوگی نہ کام سے اسے وہ بندہ چاہیے جو اسے کما کردے اسکے ناجائز کاموں کو تحفظ فراہم کرواسکے اور اعلی عہدوں پر بیٹھی ہوئی شخصیات سے انکا تعارف کرواسکے بڑے شہروں میں غربت صحافیوں کی ہڈیوں تک جاپہنچی ہے اور جو چھوٹے شہروں میں لاکھوں روپے دیکر کسی اخبار یا ٹیلی ویژن چینل کی نمائندگی حاصل کرتا ہے۔
اسکا اندازہ پڑھنے والے خود لگالیں کہ وہ کس قسم کی صحافت کریں گے اور کس کس کو بلیک میل کرکے صحافت کا نام روشن کریں گے ہماری پچھلی حکومتوں نے جس طرح باقی اداروں کا حکومتی سرپرستی میں خانہ خراب کیا تھا بلکل اسی طرح شعبہ صحافت اور صحافی حضرات بھی حکومتی بے حسی کا شکاررہے ہیں ایک کام کرنے والے صحافی نے اگر کسی شہر سے اخبار شروع کرنے کی اجازت لینی ہو تو اسے متعلقہ ڈی سی سے اجازت لینے میں مہینوں لگ جاتے ہیں لیکن یہی کام کسی سرمایہ دار نے کرنا ہوتو اخبار کی اجازت اسکے گھر میں پہنچ جاتی ہے اگر کسی کام کرنے والے صحافی کو حکومتی مدد کی ضرورت پڑ جائے تو حکومت اسے چند ہزار روپے دینے میں مہینے لگا دیتی ہے لیکن یہی کام حکومت اپنے چاہنے والے صحافیوں کو لاکھوں روپے انکے گھر جاکر پہنچا آتی ہے اسی اخبار کو اشتہار دیے جاتے ہیں جو حکومت کی چاپلوسی کرنے میں مگن رہے اور جو عوام کی بات کرے اسکا گلا گھوٹنے کی ہر ممکن کوشش کرکے اسے دبا دیا جاتا ہے حکومت کا کام سب کی مدد کرنا ہے نہ کہ صرف چند افراد کو نوازدیا جائے یہی وجہ ہے کہ آج کا م کرنے والاصحافی ایک مزدور سے بھی بد تر زندگی گذارنے پر مجبور ہے اور جو لوٹ مار میں مصروف ہیں انہیں حکومت کی پرواہ ہے قانون کی اور نہ ہی کسی کی مدد کی وہ گروپ ہر جگہ اور ہر اخبار میں مضبوط ہوتا ہے انہیں کوئی نہیں ہلا سکتامگر امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی قیادت میں یہاں بھی تبدیلی آئے وہ تبدیلی جس سے ایک عام صحافی کارکن بھی خوشحال زندگی گذار سکے گا۔