اسلام آباد: دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہونے کے باوجود پاکستان آج بھی بین الاقوامی برادری میں عزت کا مقام حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہے۔
عزت طاقت سے حاصل ہوتی ہے اور طاقت کی بنیاد معاشی استحکام ہے۔ مگر یہ معاشی استحکام صرف اس صورت میں حاصل ہوتا ہے جب عوام الناس بلا خوف و خطر اپنے معمولات زندگی پر عمل پیرا ہوں اور پوری طرح اپنی صلاحیتوں کو ملک کی ترقی کے لیے استعمال کر رہے ہوں۔
گونا گوں خطرات سے گھرے ہمارے پاک وطن کی سب سے ہم ضرورت اتحاد ہے۔ یہ اتحاد صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر عوام کا ریاست اور ریاست کے تمام اداروں پر غیر متزلزل اعتماد ہو۔ مگر بدقسمتی سے انسانی حقوق کی پہ بہ پہ پامالیاں اس مقصد کے حصول کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔
اس میں کوئی بحث نہیں کہ تمام انسانی حقوق میں سے زندہ رہنے اور آزاد رہنے کا حق سب سے فایق ہے ۔ مگر بدقسمتی سے پاکستانی حکومت شہریوں کے اس حق اولٰی کی فراہمی میں ناکام نظر آتی ہے۔ حکومت پاکستان کے ماتحت سرکاری ادارے بذات خود لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار کرنے کے الزام کا سامنا کر رہے ہیں۔
لاتعداد مقدمات میں یہ الزام پایہ ثوبت کو بھی پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کے عوام اس وقت اپنے ہی اداروں سے خوف زدہ ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ (نواز) کی موجوہ حکومت اس بد ترین ظلم کہ معاملہ پر بالکل خاموش ہے۔ اس کے مقابلے میں گزشتہ حکومت اور قومی اسمبلی کا کردار کہیں بہتر نطر آتا ہے جس کے دور میں پالیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جبری گمشدگی کے خلاف علیحدہ علیحدہ متفقہ قراردادیں منظور کی گئیں۔
گزشتہ دور حکومت میں ہی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے جبری گمشدگی کے حوالے سے کچھہ سفارشات بھی پیش کیں جن پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔ ڈیفینس آف ہیومن رائٹس کی طرف سے آج مورخہ 10 دسمبر 2014 کے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پرآپ کی وساطت سے پاکستان کی موجودہ قومی اسمبلی کو گزشتہ قومی اسملی کی قرارداد اور سفارشات کی یاد دہانی کرواتے ہوئے مطالبہ کیا جاتا کہ جبری گمشدگی کے خاتمہ کے لیے اقدامت کیے جائیں۔ اس موقع پر متذکرہ بالا قرار دادوں اور سفارشات کے ساتھ ساتھ درج ذیل اقدامات پر عمل وقت کا تقاضہ ہے:
1. پاکستان کے تمام قبایلی علاقاجات میں آئین پاکستان کا نفاذ کیا جائے اور ان علاقوں تک ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا دایرہ عمل بڑھایا جائے۔ 2. نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کی فوری تشکیل کی جائے۔ 3. تحفظ پاکستان ایکٹ کا خاتمہ کیا جا ئے۔ 4. تمام لاپتہ افراد کو ایکشن ان ایڈ آرڈینینس کے تحت فوری بازیاب کر کے اس آرڈینینس کا خاتمہ کیا جائے۔ 5. آئین پاکستان میں جبری گمشدگی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا جائے- 6. تمام شہریوں کو جبری گمشدگی سے تحفظ دینے اور جبری گمشدگی کے ذمہ داروں کو سزا دینے کے لیے فوری طور پر قانون سازی کی جائے۔ 7. آئین پاکستان کے تحت تمام افراد/ملزمان کے لیے وکیل، عدالت اور خاندان تک رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ 8. جبری گمشدگی کے ذمہ داران کو عدالت کے کٹہرے میں لا کر سزا دی جائے۔ 9. کسی بھی الزام یا شک کی بنیاد پر شہریوں کی آزادی سلب کرنے اور قید کرنے سے حتٰی والسعٰ گریز کیے جانے کی پالیسی اپنائی جائے۔ 10. کسی بھی الزام کے تحت ہونے والی تحقیقات اور قانونی کاروائی کو اسلامی اور بین الاقوامی اصولوں کے تحت رکھا جائے۔ 11. گواہان کی حفاظت کا طاقتور نظام وضع کیا جائے۔ 12. لاپتہ افراد کے خاندان کو تحفظ اور قانونی امداد فراہم کی جائے۔ 13. اقوام متحدہ کے “جبری گمشدگی سے تمام افراد کے بچاؤ کا بین الاقوامی کنونشن” پر دستخط کر کے نافذ العمل کیا جائے۔ 14. اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت کمیٹی برائے گمشدگی کی اہلیت کو تسلیم کیا جائے۔ 15. جبری گمشدگی کے شکار خاندانوں اور بازیاب افراد کی جذباتی، نفسیاتی اور معاشی حفاظت اور بحالی کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں۔
نوٹ: گزشتہ پارلیمنٹ کی منظور کردہ قراردادیں اور پیش کردہ سفارشات بطور ضمیمہ جات اس اعلامیہ کا حصہ ہیں۔
آمنہ مسعود جنجوعہ چیرپرسن ڈیفینس آف ہیومن رائٹس پاکستان