وطن عزیز پاکستان میں تاریخی شہر گوگیرہ سے آٹھ کلومیٹر کی مسافت پر ایک گائوں ایسا بھی ہے جس کو دنیا بھر میں پاکستانی ثقافت اجاگر کرنے پر بارہا انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا نیشنل اور انٹر نیشنل نمائشوں میں یہاں کی بنی ہوئی گڑیا، کھلونے اور دستکاریوں کو بھر پور پزیرائی حاصل ہوئی انجمن فلاح عامہ ٹھٹہ غلام کا کے چیئرمین امجد علی معروف براڈ کاسٹر ہیں اس گائوں کی وجہ شہرت امجد علی کی ذات بھی ہے جنھوں نے ملکی اور غیر ملکی وفود کو بارہا یہاں دعوت دی اس گائوں کی مصنوعات کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر متعارف کروانے میں جرمنی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سینتا سلر اور اُنکے شوہر ناربرٹ نے بھر پور کردار ادا کیا یہ ہی نہیں بلکہ1994ء میں یہاں ایک ڈسپنسری کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جس میں ڈاکٹر سینتا سلر کی بیٹی ڈاکٹر لیلیٰ سلر نے اپنی خدمات پیش کیں اور کئی سال تک دور دراز سے مریض یہاں آکر اپنا علاج کرواتے رہے “ٹھٹہ کیڈونا”کے نام سے قائم ادارہ کی ڈائریکٹر رخسانہ حسین نے بتایا کہ اس گائوں کو گڑیا کے گائوں سے بھی پکارا جاتا ہے جسکی وجہ شہرت خواتین کے ہاتھوں سے بنی کپڑے کی گڑیاں ہیں انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر سینتا سلر نے یہاں کی خواتین کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور انہیں اور انکے خاندانوں کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لیے 1993دستکاری مرکز برائے خواتین قائم کیا تھا جس میں خواتین اور لڑکیوں کو معیاری گڑیا بنانے کی تربیت دی گئی ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ آرٹ سنٹر سینتا سلر ڈیزائن سینٹر (SSDC)سے مقبول ہو ا ڈائریکٹر رخسانہ حسین نے بتایا کہ یہاں کی ہاتھ سے بنی ہوئی مصنوعات کو جرمنی کے بازاروں کی زینت بنانے میں سینتا سلرکاسب سے اہم کردار رہاہے، 1996 میں عورتوں کے آرٹ سینٹر میں ہی ٹین سے کھلونے بنانے کا سلسلہ شروع ہوا جہا ں پاکستانی رکشوں، بسوں اور لاریوں کے رنگ برنگے ماڈل بنائے جاتے ہیں۔
پاکستانی خواتین کی بہبود کے اعتراف میںجرمنی کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے بھی سینتا سلرکو نوازا گیا انھوں نے چاروں صوبوں کی خواتین کے علاوہ گلگت بلتستان،کیلاشی ،کوچی اور مکرانی خواتین کو بھی تربیت دی یہاں کی بنی مصنوعات کی نمائش لاہور اور اسلام آباد میں بھی ہو چکی ہے دستکاری اور کپڑے کی گڑیا دیگر کھلونے بنانے میں مہارت کی وجہ سے گردونواح کی خواتین خودکفیل ہوچکی ہیں،اسی گائوں میں خالہ بشیراں کا گھر ایسا بھی ہے جہاں دیواریں رنگ برنگے نقش و نگار سے سجی ہوئی ہیںگاؤں میں ہر سال فن تعمیر کا مقابلہ ہوتا ہے ، اس گھر کو پاکستانی ثقافت اجاگر کرنے پر انٹر نیشنل ایوارڈ سے بارہا نوازا گیا ہے گاؤں میں سینتا سلر نے ایک خوبصورت روایت کا آغاز کیاکہ ہر بچے کی پیدائش پر ایک پودہ تحفے میں دیا جاتا ہے گاؤں کا ہر گھر پھلدار درختوں اور پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔
شریک ڈائریکٹر رخسانہ حسین نے بتایا کہ اس گائوں کے جس گھر میں پھولوں کی بیل نظر آئے وہ اس بات کی علامت ہے کہ اس گھر کی عورت نے انجمن فلاح عامہ ٹھٹہ غلام کاکے زیر انتظام چلنے والے دستکاری سنٹر سینتا سلر ڈیزائن سینٹر سے ہنر سیکھا ہے ، ڈاکٹرسینتا سلراور انکے شوہر ناربرٹ نے جرمنی کے دارالحکومت برلن کے جنوب مغرب میں واقع تاریخی شہر پاٹس ڈیم کی ایک گلی میں تین سو سال پرانے گھرکو “پاکستان ہائوس “کا نام دیا جہاں پاکستانی ثقافت کی جھلک ٹھٹہ غلام کا کی خواتین کے ہاتھوں کی بنی گڑیوں اور کھلونوں میں نظر آتی ہے ،سانچ کے قارئین کرام ! گزشتہ دونوں جرمنی سے تعلق رکھنے والے مصور ، مجسمہ ساز ،موسیقار پیٹر ہَیشٹ نے ٹھٹہ غلام کاکے دستکاری مرکز میںصحافیوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سیاحت کے لئے انتہائی پر کشش ہے،پاکستان آنے کا فیصلہ درست ثابت ہوا ، پاکستانی مہمان نواز پُر خلوص اور محنتی لوگ ہیں۔
وفد میں راقم الحروف (محمد مظہررشید چودھری )،سینئر صحافی شہباز ساجد اور چودھری عرفان اعجاز تھے پیٹر ہَیشٹ “آرٹسٹ اِن ریزیڈنس” پروگرام کے تحت ایک ماہ کے لیے ٹھٹہ غلام کا کے دستکاری مرکز میں مقیم رہے ،انھوں نے معروف براڈ کاسٹر امجد علی اور انکے رفقا ء کا خصوصی شکریہ ادا کیا جن کی دعوت پر وہ یہاں تشریف لائے ،دنیا کے مختلف خطّوں کی سیر و سیاحت کرنے والے مسٹر ہَیشٹ نے بتایا کہ وہ زیادہ تر جانوروں کی ڈرائنگ بناتے ہیں کیوں کہ چرند پرند ایک ایسا موضوع ہے، جس میں دنیا کے تمام علاقوں کے انسان یکساں دلچسپی لیتے ہیں۔ ٹھٹہ غلام کا میں قیام کے دوران وہ پرندوں اور جانوروں کی ڈرائنگ بنا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے ، گاؤں کے کچے گھروندوں کی دیواروں پر مٹی سے مختلف پرندوں کی اْبھری ہوئی تصویریں تخلیق کرنے کے ساتھ گاؤں والوں کو مویشی پالنے کے حوالے سے مشورے بھی دیتے رہے۔
پیٹر ہَیشٹ نے اپنے دورہ کے دوران مختلف مقامات پر بچوں کے ساتھ مل کر ڈرائنگ ورکشاپس میں شرکت کی، گاؤں کے پرائمری سکول کے طلبہ و طالبات کے ساتھ مل کر ڈرائنگ بنائیں اوکاڑہ کے نجی تعلیمی ادارے احمد جلال کِڈز کیمپس میں بھی بچوں کے ساتھ ڈرائنگ سیشنز میں شرکت کی۔ گاؤں والوں نے پیٹر کی مہمان نوازی اور میزبانی اس محبت سے کی کہ الوداعی لمحات میں مختلف لوگوں سے گلے ملتے ہوئے پیٹر ہشٹ کی آنکھیں نَم ہوگئیں۔ اُنکا کہنا تھا کہ وہ ضرور ایک بار پھر اس گاؤں میں آنا چاہیں گے کیونکہ اْنھیں یہاں اتنا پیار ملاہے، جس کا کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اْنکا کہنا تھا کہ پاکستان آتے وقت دوست احباب نے اْنھیں کافی ڈرایا تھا کہ پاکستان میں امن و امان کی خراب صورت حال ہے بلکہ یہاں نہ آنے کا مشورہ دیا تھا لیکن اُنھوں نے تمام تر خدشات کے باوجود پاکستان آنے کا فیصلہ کیا، جو درست ثابت ہوا کیونکہ یہاں قدم قدم پر اْنکا انتہائی پْرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ اُنھوںکہا کہ وہ واپس جرمنی جا کر پاکستان کی مثبت تصویر کشی کرتے ہوئے دیگر احباب کو بھی پاکستان کی سیر و سیاحت کے لئے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔