ایک عرصہ سے پاکستانی سیاست میں یوٹرن کی اصطلاح وزیراعظم عمران خان کے لئے مخصوص کی گئی اور پھر رفتہ رفتہ یہ اصطلاح اس قدر عام ہو گئی کہ وزیراعظم صاحب کی پارٹی کے ہر چھوٹے بڑے لیڈرسے لیکر ایک عام کارکن تک اس اصطلاع کی زدمیں آگیا۔ ہمارے یہاں یوٹرن کا مطلب عام طور پر اپنی بات سے مکرنا، کسی بات پر قائم نہ رہنایا اپنے موقف سے انحراف کرناہے۔ اصطلاحات کو رواج دینے میں ہمارے روئیوں کابڑادخل ہوتاہے، حالانکہ کسی بھی اصطلاح کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے اسکے ارتقا، اصل معنی اورسیاق وسباق کے حوالے سے مطالعہ بہت ضروری ہوتاہے۔اصطلاحات کی بے شمارقسمیں ہیں، جیسے ادبی ، تنقیدی، نفسیاتی ، سائنسی، طبی، قانونی ،اخلاقی، مذہبی، معاشی اورمالی اصطلاحات وغیرہ وغیرہ۔بہت سے اصطلاحات دوسری زبانوں سے ہماری زبان کاحصہ بن گئی ہیں۔سردست ہماراموضوع یوٹرنU Turnکی حقیقت بیان کرناہے۔”یو”دراصل انگریزی زبان کاحرف ہے اور”ٹرن” انگریزی زبان میں موڑنے کو کہتے ہیں۔
یہ ٹریفک کی اصطلاح ہے،جس میںایک ڈرائیورگاڑی کو 180ڈگری کے زاوئے پر موڑتے ہوئے واپس پیچھے کی جانب چلنے لگتاہے۔اس مقصدکے لئے سڑکوں پر یوٹرن(U Turn)کے بورڈزلگائے جاتے ہیں ۔ اصطلاحی طورپر یوٹرن کامطلب اپنے پالیسی میں تبدیلی لاناہے۔پاکستان میں ایک عرصہ تک مخالفین وزیراعظم پاکستان کے خلاف یوٹرن کی اصطلاح منفی معنوں میں استعمال کرتے چلے آرہے تھے ، یہاں تک کہ کچھ لوگ وزیراعظم کو یوٹرن خان کے نام سے پکارنے لگے۔پھرجب 16نومبر2018کو وزیراعظم عمران خان نے یوٹرن کی اصطلاح پراپنے علم ودانش کی روشنی میں مدلل بحث کی اورکہاکہ لیڈرکی پہچان یہ ہے کہ وہ قوم اورملک کے مفاد میں یوٹرن لے اورجویو ٹرن نہیں لیتا، وہ لیڈرہی نہیں ہے۔اسکے کچھ دنوں بعدملائشیاکے وزیراعظم سے پریس کانفرس کے دوران یوٹرن کی بابت سوال کیاگیا،جس کے جواب میں انہوں نے کہاکہ قوم اورملک کی بھلائی کے لئے یوٹرن لینااچھی بات ہے۔ان بیانات کے بعداگرایک طرف مخالفین دھیرے دھیرے اپنے موقف سے یوٹرن لینے پرمجبورہوگئے تودوسری طرف ہماری قوم کو یوٹرن کی اصطلاح تھوڑی بہت سمجھ میں آگئی۔
شاعرمشرق علامہ محمداقبال نے دومتضادقسم کے نظریات یعنی خودی اوربے خودی پیش کئے تھے۔ خودی کاتعلق فردسے ہے اوربے خودی کاتعلق ملت سے ہے۔خودی میں انسان اپنے نفس اورذات کی تعمیروترقی میں مگن رہتاہے اوراسے اپنی ہربات اورہرعمل پرپوراپور ا اعتمادہوتاہے ۔ وہ اپنی سوچ اورنظرئے میں کسی کی رائے یامداخلت برداشت نہیں کرسکتااورنہ ہی اپنی سوچ اوراصولوں میں لچک پیداکرتاہے، کیونکہ خودی کاتعلق اسکی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔
اسکے برعکس بے خودی میں انسان قوم اورملک کے مفاد کے لئے اپنی سوچ اوراصولوں کوقربان کردیتاہے اور خود کو ہرفیصلے میں مطلق العنان نہیں سمجھتابلکہ وہ حالات اورواقعات کی روشنی میں جماعت کے ساتھ رشتہ استوارکرکے باہمی مشاورت سے ایسے فیصلہ کرتاہے، جوکہ بظاہرتوانفرادی طورپراسکے اصولوں کے خلاف ہوتے ہیں لیکن اجتماعی طورپر ملک وملت کے لئے سودمندثابت ہوتے ہیں ۔انسان کایہی اقدام یعنی ذاتی سوچ اورنظرئے کو ملک وملت کے مفاد پر قربان کرکے اجتماعیت کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرنایوٹرن کے مترادف ہے۔
قوم جس روئے اورطرز عمل کو یوٹرن کانام دیتے ہیں ، وہ ہماری زندگی کالازمی حصہ ہے،لیکن ہم نے کبھی غورنہیں کیاہے۔ صبح گھرسے نکلتے ہوئے ہماراارادہ کچھ اورہوتاہے لیکن دوست احباب کے مشورے پرہم اپناارادہ بدلتے ہیں اورکسی امرکے لئے اپنی سوچ کے برعکس دوسرافیصلہ کرلیتے ہیں ۔لہذا ہم نے یوٹرن لیااوریہی یوٹرن ہمارے لئے مفیدثابت ہوتاہے۔کسی بھی قومی راہنماکے لئے یہ حکمت اوردانشمندی کاتقاضاہے کہ وہ محض اپنی سوچ اورعقل کی بنیاد پر فیصلہ نہ کرے بلکہ قوم اورملت کے مفادکے لئے اپنی سوچ اورفکر کو بالائے طاق رکھ کر جماعت کے ساتھ رابطہ استوارکرے اوراجتماعیت کے مشورے سے ایسا فیصلہ صادرکرے، جوقوم اورملک کے لئے مفید ہوں۔کاش ہمارے سابقہ حکمران ایسے چندیوٹرن لے لیتے،جس سے ہمارا ملک آج اس مقام پرنہ ہوتابلکہ ہم ترقی کے سفر میں دنیا کی دیگر اقوام کے ساتھ برابر شریک ہوتے۔