تحریر : شیخ خالد ذاہد کسی کے لئے کسی بات کو جاننا دورِ حاضر میں کوئی مشکل کام نہیں رہا، ہاں البتہ اسکے لئے آپکے پاس ذرائع ہونا ضروری ہے جس میں سب سے اول “انٹرنیٹ” کی سہولت ہے، اس سہولت کا آپکے پاس ہونا اس بات کی دلیل سمجھی جا سکتی ہے کہ اسکو استعمال کرنے والے آلات بھی میسر ہونگے۔ آپ اگر اپنے آپ کو مختلف “سماجی ویب سائیٹس” سے وابسطہ کیئے ہوئے ہیں تو معلومات خود بخود آپ کے پاس پہنچ رہی ہے۔ ابھی آپ نے ایک خبر پر سے دھیان ہٹایا نہیں ہوتا کہ کوئی نئی خبر یا یہی خبر تازہ بن کر پھر سے آجاتی ہے۔ دنیا جانکاری کے حوالے سے بے ہنگم ہو چکی ہے۔ مگرلمحہ فکریہ یہ ہے کہ معلومات تک رسائی کی اتنی آسانیوں کے باوجود بھی “وکی لیکس، پانامہ لیکس اور مختلف لیکس بھی موجود ہیں اور یہ لیکس اپنی اہمیت منوانے میں کامیاب بھی ہوئیں ہیں۔ جیسے ہمارے وزیرِ اعظم صاحب کی پانامہ کیس میں نام آنے کی وجہ سے وہ کچھ سامنے آچکا ہے جو کہ شائد کوئی خفیہ ادارے بھی معلوم نہیں کر سکتے تھے۔
معلومات کے اس نا تھمنے اور نا سمٹنے والے طوفان کی بدولت سب سے بڑا نقصان جس کا سامنا ہم سب یعنی ساری دنیا کے لوگوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے وہ یہ کہ ہم کسی “بے حس” ہوتے جارہے ہیں، حادثے، سانحے، خوشی، وغیرہ وغیرہ اپنا کوئی تاثر ہی نہیں چھوڑ رہا، جز وقتی احساس۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب آپ کو کسی بھی بات کا علم اور گمان پہلے سے بتا دیا جائے تو اس اصلیت کی حقیقت بہت کم بلکہ نا ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ اس ساری صورتحال کی کچھ نا کچھ ذمہ داری لکھنے والوں پر بھی عائد ہوتی ہے کیوں اس معلومات کو عام کرنے میں انکا کردار سب سے اہم ہے اور یہ کہ انہوں نے لکھ لکھ کر اہمیت جیسے لفظ کی اہمیت ختم کر دی ہے۔
حالات کو یہاں تک لانے کا بنیادی مقصد آنے والی نسلوں کو “احساس” نامی شے سے آزادی دلانا لگتا ہے تاکہ مشرق اور مغرب کا فرق کم ہوتے ہوتے ختم ہوجائے اور جو رہی سہی مشرقی قدریں باقی ہیں انکا بھی مدفن بنا دیا جائے۔
ہم لکھنے والوں کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ لکھتے ہوئے اس چیز کا تجزیہ کرلیں کہ ہم جو لکھ رہے ہیں وہ ہم ہی لکھ رہے ہیں کوئی ہم سے یہ لکھواتو نہیں رہا یا پھر ہم کسی ایسے کی ترجمانی تو نہیں کررہے جو کسی بھی طرح سے ہمارے ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ ہے یا پھر کسی ایسے کی حمایت میں تو قلم کی روشنائی ضائع نہیں کر رہے جو ہمارے دین میں کسی قسم کا حرف اٹھنے کے مترادف ہے۔
لکھنے والوں کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ایسے مقاصد کی تکمیل کیلئے لکھیں جس سے کم از کم معاشرے میں بگاڑ کی کوئی صورت پیدا نا ہو۔ اندر یا باہر سے ہم سب کسی نا کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی تائد کرتے ہیں اور ہمارے لکھنے میں ان کی ترجمانی کا عکس بھی عیاں ہوجاتاہے۔ ہمارے لئے ہمارا دین ہمارا ملک بہت اہم ہیں ہمیں اپنی تحریروں پر خود احتسابی کی حد لگانی پڑے گی، اس حد سے ہمارے وطن کو ہمارے پڑھنے والوں بہت فائدہ پہنچےگا اور ماحول میں موجود آلودگی آہستہ آہستہ صاف ہوجائے گی ہمارے سیاست دان جب بغیر ہمارے حمایت کہ سیاست کرینگے تو واقعی مخلص ہوتے دیکھائی دینگے۔ لکھنے والوں پر دورِ حاضر میں بہت بھاری ذمہداری عائد ہوتی ہے کہ ہم یہ جان رکھیں کے ہم کس کیلئے لکھ رہے ہیں۔