تحریر: ملک محمد سلمان موجودہ دور میں دنیا بھر میں انٹرنیٹ کا استعمال بے حد بڑھ چکا ہے اور انٹرنیٹ کی دنیا سے تعلق رکھنے والا تقریباً ہر شخص فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈ اِن اور دیگر بہت سی سوشل سائٹس کو استعمال کررہا ہے۔ علم، معلومات، پروپیگنڈہ، حقائق اور مفروضات کی ترسیل کا موثر ترین ذریعہ ہونے کی وجہ سے اس نے نجی اور عوامی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ شوشل سائٹس کے بڑھتے ہوئے استعمال کے حوالے سے کیمبرج یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ انٹر نیٹ صارفین کو ان کے والدین اور دوست احباب سے زیادہ کمپیوٹر جانتا ہے۔جس طرح ہر چیز کے فوائد و نقصانات ہوتے ہیں، جو اس کو استعمال کرنے والوں پر منحصر ہوتے ہیں، سوشل میڈیا جہاں بہت موثر ثابت ہورہا ہے وہاں اس کا غلط استعمال اسے نقصان بھی پہنچارہا ہے۔ منفی سوچ اور پروپیگنڈابھی سوشل میڈیا کاباقاعدہ حصہ بن رہے ہیں ۔
گزشتہ شب روزمرہ کے مشاغل سے فارغ ہوکر شوشل میڈیا اکائونٹ کھولا تو ایک فیس بک فرینڈ کی طرف سے ان بکس میں میسج آیا ہوا تھا ۔دیکھا تو بظاہر کوئی برہنہ تھمبل کے ساتھ ویڈیو تھی۔ بہت غصہ آیا فوراً سے پہلے اسے ان فرینڈ کیااتنی دیر میں قدرے تھوڑی پہچان والے دوست کی طرف سے بھی ویسا ہی پیغام موصول ہوا معمولی توقف کے بعد اسے بھی ان فرینڈ کر دیا۔پھر کیا تھا فیس بک فرینڈ لسٹ میں موجود انتہائی معزز اور سینئر صحافیوں ،قابل بیوروکریٹس اور ملک کے سیاسی تقدیر کے مالک نامور ساستدانوں میں سے بھی چند ایک کی طرف سے ویسے ہی پیغام موصول ہوئے تو تھوڑی تشویش گزری کہ یہ کوئی وائرس ہو سکتاہے۔ورنہ اعلیٰ پائے کے دانشور صحافی ،قابل ترین بیوروکریٹس،اور دائو پیچ کیے ماہر سیاستدان ایسی غلطی کیونکر کر سکتے ہیں۔خیر میں نے اس بیہودہ ویڈیو لنک کو اسکی بیہودگی اور وائرس کے وجہ سے کلک بھی نہ کیا اور اپنے کام میں لگ گیا۔تھوڑی دیر گزری تو وائرس کا سوچ کر مجھے اپنے کمپیوٹر کی فکر لاحق ہوئی ،حال ہی میں کمپیوٹر کی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالے والے دنیا کے ٹاپ ایتھیکل ہیکر رافع بلوچ سے رابطہ کیااور تمام تر صورت حال اور فکر سے اگاہ کیا ۔اس پر رافع بلوچ نے بتایا کہ کچھ تخریب کارعناصر ہوتے ہیں جو مختلف مقاصد کیلئے ایسے وائرس بناتے ہیں اور پھر مختلف طریقوںسے نہ صرف لوگوں کے کمپیوٹراورموبائلز کو نقصان پہنچاتے ہیں
Access Permission
بلکہ آپ کے سسٹمز اور اکائونٹ میں موجود ڈیٹا تک Accessحاصل کرکے آپ کے اہم راز اور کاروباری اکائونٹس تک چوری کر لیتے ہیں۔عام طور پر تخریب کار معلومات تک رسائی کے لیے دو حربے استعمال کرتے ہیں ،پہلاآپ کو مختلف انعامی سکیموں کا جھانسہ دیتے ہیں اوردوسراسب سے مقبول عام طریقہ یہ ہے کہ مختلف فحش ویڈیو شو کرکے صارفین کو ویڈیو دیکھنے کالالچ دیا جاتا ہے۔مکمل ویڈیو دیکھنے کے خواہشمند رسائی حاصل کرنے کیلئے جب لنک پر کلک کرتے ہیں تو آپ سے ٹرمز اینڈ کنڈیشنزقبول کرنے اور آپکی سیٹنگ تبدیل کرنے کی اجازت طلب کی جاتی ہے تو کچھ لوگ اپنی معصومیت اور اکسائٹمنٹ میںٹرمز اینڈ کنڈیشنز کو بنا سوچے سمجھے اوکے کر دیتے ہیں جبکہ حقیقت میں وائرس آپکو ویڈیو تک رسائی دینے کے بہانے آپ کے سسٹم اور اکائونٹس تک رسائی کیلئے آپ سے پرمیشن لیتاہے۔جب ہم ایک دفعہ وائرس کو (Access Permission)دے دیتے ہیں تو پھر وہ اپنے مرضی سے ایک مخصوص ٹائم کیلئے اکائونٹس کو آٹومیٹکلی چلاتا ہے اور تمام دوستوں کو آپکے اکائونٹ سے مال وئیراورفحش پیغامات بھیج سکتا ہے اور ہماری ٹائم لائن کا بھی آزادانہ استعمال کرسکتا ہے۔
جرائم کی دنیا میں ایک نئی اصطلاح سائبر کرائم رائج ہوگئی ہے جو کہ انٹر نیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ان جرائم میں کسی صارف کا ڈیٹا چرا لینا، کسی کی ذاتی معلومات سے رسائی حاصل کرکے اس کا غلط استعمال کرنا، بینک فراڈ، لوگوں کو جعلی ای میلز کے ذریعے لاٹری کالالچ دے کر ان کے کریڈٹ کارڈز اور بینک اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرکے اس کی صفائی کرنا اور دیگر کئی جرائم شامل ہیں۔ہیکنگ اور وائرس سے محفوظ رہنے کیلئے اجنبی لوگوں کی جانب سے وصول ہونے والی ای میل کے ساتھ جڑی ہوئی فائلز کو ڈون لوڈ کرنے سے پرہیز کریں، خاص طور پر .exe, zip, scr, vbs فائلز۔ ان فائلز میں ٹروجن ہارس موجود ہوسکتے ہیں جن کی مدد سے کریکر آپ کے کمپیوٹر میں داخل ہوسکتا ہے۔ اپنے کمپیوٹر میں موجود اینٹی وائرس کو ہمیشہ اپڈیٹ رکھیںاور انٹرنیٹ پر کسی غیر معیاری ویب سائٹ سے کوئی سافٹ وئیر ڈون لوڈ نہ کریں اس عمل سے کریکر کیلئے آپ کے کمپیوٹر میں ڈاخل ہونے کو دروازے کھل سکتے ہیں۔
Airport
ہمیشہ ایک مضبوط پاس ورڈز تشکیل دیں اورباقاعدگی سے اپنے پاس ورڈز تبدیل کرتے رہیں۔ ہمیشہ موبائل ویریفیکیشن الرٹ کو ON رکھیں تاکہ اگر کسی دوسرے کمپیوٹر سے کوئی آپکے اکائونٹ سے آن لائن ہوتو آپ کو الرٹ وصول ہوجائے۔ اگر آپ سفر پر جا رہے ہیں تو اپنے کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کی تفصیلات کسی وائی فائی نیٹ ورک کی خریداری کے لئے استعمال نہ کیجیے یا پھر ائیرپورٹ پر خدمات مہیا کرنے والوں کاایڈوانس اکاوئنٹ بنا لیجیے۔آخر پر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ پانامہ لیکس نے تو ہمارے کچھ ساستدانوں کی خفیہ دولت کے رازوں سے پردہ اٹھایا تھا مگر اس وائرس نے تونہ صرف بہت سارے معززین کے چہروں سے نقاب ہٹادیا بلکہ یہ بھی بتادیا کہ کس طرح ایک فحش ویڈیو تک رسائی کیلئے ان کا پاجامہ لیک ہوگیا۔