وہ ساہیوال سے لاہور صرف انٹرن شپ کیلئے آئی تھی۔ اسے یونیورسٹی کی طرف سے ہمارے ادارے میں ریفر کیا گیا تھا۔ بہت پریشان تھی۔ لاہور میں چند رشتہ داروں کے علاوہ اس کے پاس رہنے کو جگہ نہیں تھی ۔ دو ماہ کی انٹرن شپ تھی جس کیلئے اسے لاہور ہی رہنا تھا اور زیادہ تر لوگوں کیلئے رشتہ داروں کے ہاں اتنا لمبا عرصہ مسلسل رکے رہنا اخلاقی طور پر ممکن نہیں ہوتا ۔ اسے ہاسٹل میں رہائش اختیار کرنا پڑی ۔ باپ کسان تھا ، جسے اپنی بچی کی تعلیم کے دیگر اخراجات کے ساتھ ساتھ اب دو ماہ تک اس کے لاہور میں قیام و طعام اور آمد و رفت کا خرچہ بھی برداشت کرنا پڑنا تھا جبکہ گھر سے دور ، اکیلی بیٹی کے رہنے کی فکر اور پریشانی الگ تھی۔
میرے پاس سال میں دو ، تین مرتبہ مختلف شہروں کے تعلیمی اداروں سے بچے اور بچیاں انٹرن شپ کرنے آتے ہیں ۔ ان میں میڈیا سٹیڈیز ، پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشن کے طلباء شامل ہیں ۔ ماسٹرز کی ڈگری مکمل کرنے کے دوران انہیں متعلقہ اداروں میں سے کہیں ڈیڑھ سے دو ماہ کی انٹرن شپ کرنا ضروری ہوتی ہے ۔ اس ضمن میں ان طلباء کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ گوجرانوالہ ، گجرات ، ناروال ، ساہیوال ، سرگودھا اور ایسے ہی دیگر اضلاع سے طلبہ و طالبات کو انٹرن شپ کیلئے لاہور بھیجا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں ، بھیجنے والے تعلیمی ادارے نہ تو طلباء کی سہولت دیکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی سہولت فراہم کرنے کی ذمہ داری لیتے ہیں ۔ طلباء کو جو بھی کرنا ہوتا ہے ، اپنی مدد آپ کے تحت کرنا ہوتا ہے ۔ دوسری جانب ، انٹرن شپ کا موقع بھی انہیں گویا احسان چڑھا کر دیا جاتا ہے ، حالانکہ یہ اَن پیڈ (بلامعاوضہ) انٹرن شپ ہوتی ہے۔
یونیورسٹیز کی جانب سے انہیں کچھ گائیڈ کر کے بھی نہیں بھیجا جاتا ۔ اکثر طلباء ہمارے پاس آتے ہیں اور لیٹر اور انٹرویو دینے کے بعد انہیں اگلے دن اور بعض اوقات اسی دن جوائن کرنے کا کہا جاتا ہے ، تو رہائش کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے انہیں فقط رات گزارنے اپنے شہر واپس جانا پڑتا ہے اور اگلے دن واپس آکر جوائنگ بھی دینا ہوتی ہے اور رہائش کا بھی بندوبست ساتھ ساتھ کرنا پڑتا ہے … اب اگر ان کا اس شہر میں کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو یا ایک ہی دن میں ان کو چھت میسر نہ آ سکے تو ان کی جان پر بن آتی ہے ۔
ان طلبہ و طالبات کی اتنی پی آر نہیں ہوتی کہ وہ ”دیارِ غیر” میں اپنے لئے قیام کا بندوبست کریں ۔ نہ ہی ان کا جیب خرچ انہیں اجازت دیتا ہے کہ وہ ایسی کسی ”عیاشی” کے مرتکب ہوں … اور نہ ہی زیادہ تر طلباء کے والدین اس قابل ہوتے بچوں کا یہ اضافی خرچ برداشت سکیں ۔ ان میں سے کسی کا باپ ریٹائر ہوتا ہے تو کسی کا باپ مزدور ، کسی کے باپ کی پرچون کی دکان ہوتی ہے ، کوئی پرائیویٹ ملازم ہوتا ہے ، تو کوئی کسی بیوہ ماں کا بیٹا یا بیٹی ہے ۔ بہت کم طلبہ و طالبات ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق اے کلاس سے ہوتا ہے اور انہیں کسی حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا …وگرنہ بیشتر طلباء مڈل کلاس خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے پہلے ہی اتنے وسائل نہیں ہوتے ، ایسی صورت میں انہیں انٹرن شپ یونورسٹیز کی طرف سے اضافی بوجھ تصور ہوتی ہے ۔
میڈیا سٹیڈیز ، پولیٹیکل سائنس کے طلباء کو انٹرن شپ کیلئے زیادہ تر میڈیا کے اداروں میں ہی ریفر کیا جاتا ہے۔ لاہور، اسلام آباد ، کراچی میں میڈیا کے مین دفاتر ہیں ۔ یعنی ان بڑے شہروں کو ”سنٹر پوائنٹس” کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی لئے طلباء کو یہاں ریفر کیا جاتا ہے ۔ تاہم یہ امر قابل ذکر ہے کہ تقریباً ہر شہر میں میڈیا ہائوسز کے بیورو دفاتر موجود ہوتے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ہاں اس وقت کم و بیش 200 سے زائد ٹی وی چینلز ہیں ۔ ان میں سے اگر صرف مین سٹریم نیوز چینلز ہی دیکھے جائیں تو ان کی تعداد 25 سے 30 کے قریب تو لازماً ہے ۔ باقی مقامی اور چھوٹے ٹی وی چینل اس کے علاوہ ہیں ۔ ان طلباء کو چینلز کے ان (مقامی) بیورو آفسز میں بھیجا جا سکتا ہے جہاں وہ مختلف شعبوں میں ایک ، دو ماہ کی ٹریننگ باآسانی لے سکتے ہیں … اسی طرح ہر شہر ، ہر ضلع میں بیسیوں کی تعداد میں اخبارات اور میگزین کے دفاتر ہیں ۔ پنجاب بھر میں شائع ہونے والے تمام اقسام کے رجسٹرڈ اخبارات اور میگزین (روزنامہ ، ہفت روزہ ، 15 روزہ ، ماہنامہ ، سہ ماہی ، ششماہی ، سالانہ ) کی تعداد کم و بیش 8777 ہے ۔ طلباء کو اخبارات اور جرائد کے دفاتر میں ریفر کیا جا سکتا ہے جہاں وہ کام سیکھ سکتے ہیں … نیوز پیپر ایجنسیاں ہر جگہ موجود ہیں ۔ وہاں سیکھنے کے بیشتر مواقع میسر آ سکتے ہیں … ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسز موجود ہیں … آپ بات کریں تو وہاں انٹرن شپ ممکن ہو سکتی ہے ۔ غرض آپ طلباء کیلئے مقامی طور پر دستیاب وسائل کو استعمال میں لائیں … مقامی طور پر انہیں کہیں بھی بھیج دیں ، مگر یوں ”دربدر” تو نہ کریں نا … یہ تعلیمی اداروں / یونیورسٹیز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے پیپر ورک کریں اور مذکورہ تمام مقامی اداروں سے تعلقات استوار کریں ۔ ہر تعلیمی ادارے میں انٹرن شپ کے حوالے سے ایک فوکل پرسن یا کوارڈینیٹر مقرر ہوتا ہے جو طلباء کو مختلف اداروں میں ریفر کرتا ہے ۔ یہ اس فوکل پرسن کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ انٹرن شپ کے حوالے سے ترجیحاًمقامی مواقعوں کا حصول ممکن بنائے اور طلباء کیلئے آسانی کا سامان کرے ۔
ہمارے دفتر میں ہڑپہ سے ایک لڑکی انٹرن شپ کرنے آئی ۔ اس کا لاہور میں کوئی رشتہ دار نہیں تھا ۔ قصور میں اس کی خالہ رہتی تھی ۔ وہ اس کے پاس رہائش پذیر ہوگئی اور روزانہ قصور سے لاہور انٹرن شپ کی غرض سے آنے لگی ۔ جب یہاں کے فوکل پرسن کو علم ہوا تو اس نے فوری طور پر وہاں کے مقامی دفتر سے رابطہ کیا اور اسی کے ایریا کے قریب ترین انٹرن شپ کو یقینی بنایا ۔ یوں اس لڑکی اور اس کے گھر والوں کی سانس میں سانس آئی … ایسے ہی ہم کتنے طلباء کیلئے آسانی پیدا کر سکتے ہیں ۔ اگر رب نے ہمیں اس قابل بنایا ہے اور کوئی اختیار دیا ہے تو ہمیں دوسرے کا احساس کرتے ہوئے اس کی آسانی کیلئے اپنا ہر ممکن کردار ادا کرنا چاہئے ۔ اگرچہ یہ مذکورہ فوکل پرسن کی ذمہ داری نہیں تھی کہ اس لڑکی کیلئے متبادل انتظام کرتی … اس کو یہاں بھیجنے والی یونیورسٹی کے کوارڈینیٹر کو یہ احساس کرنا چاہئے تھا ۔ تعلیمی ادارے طلباء کی انٹرن شپ کے حوالے سے جتنا خیال کریں گے ، اتنا ہی طلباء نہ صرف دل لگا کر کام سیکھیں گے بلکہ یونیورسٹی کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی طور پر بھی اپنے اپنے علاقوں کے متعلقہ اداروں کیلئے فیضیاب ثابت ہوسکتے ہیں۔
زیادہ نہیں کر سکتے تو کم از کم طالبات کو یہ سہولت ضرور دیجئے کہ انہیں گھروں کے قریب انٹرن شپ کا موقع مل سکے ، تاکہ ان کے گھر والوں کو اس ضمن میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ کیونکہ کسی باپ کا دل نہیں کرتا کہ اس کی بیٹی یوں گھر سے دور ، کسی دوسرے شہر میں اکیلی جا کر رہ رہی ہو … ہمارے تعلیمی ادارے وطن عزیز کے مستقبل کیلئے کس حد تک مفید ثابت ہو رہے ہیں ، اس سوال کا جواب انہیں خود میں سے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھئے ! احسا س مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے۔