چین (جیوڈیسک) بین الاقوامی پولیس انٹرپول کے کئی دنوں سے لاپتہ اور اب سابق سربراہ مینگ ہونگ وے چین میں ملکی حکام کی حراست میں ہیں اور ان کے خلاف رشوت خوری کے الزام میں تفتیش جاری ہے۔ یہ بات چینی وزارت برائے عوامی سلامتی نے بتائی۔
چینی دارالحکومت بیجنگ سے پیر آٹھ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق چین کی وزارت برائے عوامی سلامتی نے اپنی ویب سائٹ پر آج بتایا کہ مینگ ہونگ وے، جو فرانس میں قائم بین الاقوامی پولیس ادارے انٹرپول کے سربراہ بھی تھے، چینی حکام کی تحویل میں ہیں اور ان سے چینی قوانین کی خلاف ورزیوں اور رشوت ستانی کے الزامات کے تحت پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
قبل ازیں کل اتوار سات اکتوبر کو اسی چینی وزارت نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ مینگ ہونگ وے نے انٹرپول کے سربراہ کے طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ مینگ ہونگ وے، جو ایک چینی شہری ہیں، انٹرپول کے سربراہ ہونے کے علاوہ چین میں پبلک سکیورٹی کی وزارت کے نائب وزیر بھی ہیں۔ اس چینی وزارت نے یہ نہیں بتایا کہ آیا وہ ابھی تک نائب وزیر کے عہدے پر فائز ہیں یا انہوں نے اپنے اس عہدے سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے یا انہیں برطرف کر دیا گیا ہے۔
چین کی پبلک سکیورٹی کی وزارت کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’مینگ ہونگ وے کے خلاف رشوت لینے اور ملکی قوانین کی خلاف ورزیوں کے شبے میں چھان بین کی جا رہی ہے۔ ایسا بالکل درست وقت پر اور قطعی دانش مندانہ اقدام سمجھ کر کیا جا رہا ہے۔‘‘
مینگ ہونگ وے انٹرپول کے سربراہ ہونے کے علاوہ چین میں پبلک سکیورٹی کی وزارت کے نائب وزیر بھی ہیں
مینگ ہونگ وے کے بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ انٹرپول کے سربراہ منتخب ہونے والے پہلے چینی شہری تھے، جنہوں نے دو برس قبل 2016ء میں یہ ذمے داریاں سنبھالی تھیں۔
ان کے ستمبر کے اواخر میں واپس اپنے وطن چین جانے کے بعد سے پراسرار حالات میں لاپتہ ہو جانے کی اطلاع ان کی اہلیہ نے فرانسیسی پولیس کو دی تھی۔ اس پر فرانسیسی پولیس نے اپنے طور پر تفتیش بھی شروع کر دی تھی اور چینی حکام سے رابطہ بھی کیا تھا۔
سن دو ہزار سولہ میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے فوراﹰ بعد ہی ٹرمپ نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا،’’ مجھے چین سے محبت ہے۔‘‘ لیکن جہاں تک بیجنگ حکومت سے متعلق اُن کے تبصروں کا تعلق ہے تو وہ کبھی مثبت نہیں رہے۔
ایسا ان کے چین پہنچنے کے کئی روز بعد ہوا تھا کہ بیجنگ میں حکام نے یہ اعتراف کر لیا تھا کہ ہونگ وے ان کی حراست میں ہیں۔ پھر چین ہی سے اتوار سات اکتوبر کو مینگ ہونگ وے نے انٹرپول کو اپنا استعفیٰ بھی بھیج دیا تھا، جس کے بعد انہیں ذرائع ابلاغ میں ’انٹرپول کا سابق سربراہ‘ لکھا جانے لگا۔
مختلف نیوز ایجنسیوں نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ ہونگ وے نے انٹرپول کے سربراہ کے طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ بھی مبینہ طور پر چینی حکومت کے دباؤ کے تحت دیا۔
اسی دوران مینگ ہونگ وے کی اہلیہ نے فرانسیسی شہر لیوں میں، جہاں انٹرپول کے صدر دفاتر قائم ہیں، ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ چین میں حراست کے دوران وہ اپنے شوہر کی سلامتی کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’میرے شوہر نے مجھے چین سے ایک موبائل فون ٹیکسٹ میسج میں ایک چاقو کی ’ایموجی‘ بھیجی ہے، جس نے مجھے شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہاں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہو گا۔‘‘
ماہرین کے مطابق انٹرپول کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس ادارے کا کوئی سربراہ پہلے تو کئی روز تک لاپتہ رہا، پھر اس کے اپنے ہی وطن میں رشوت ستانی کے شبے میں حکام کی حراست میں ہونے کی تصدیق بھی کر دی گئی اور وہیں سے انہوں نے انٹرپول کی سربراہی سے استعفیٰ بھی دے دیا۔