اکرم‘ سائیکالوجی کا طالب علم تھا۔ اس کے پریکٹیکل میں ایک جز یہ بھی شامل تھا کہ جیل کا دورہ کیا جائے اور ملزمان کے انٹرویو لیے جائیں۔ معلوم کیا جائے کہ کن عوامل کے ردعمل کے طور پر جیل اپنے باسیوں کا مقدر بنتی ہے؟ یونیورسٹی کی طرف سے ہی سپریڈنٹ جیل سے دورہ کرنے کا اجازت نامہ لیا گیا۔ اکرم اپنے کلاس گروپ کے ساتھ مقررہ دن جیل پہنچ گیا۔ استاد اور طالب علم اپنے اپنے سوالات ملزمان سے پوچھ رہے تھے۔ اکرم نے دیکھا کہ ایک چوبیس پچیس سالہ نوجوان الگ تھلگ ایک طرف بیٹھا کسی گہری سوچ میں ڈوبا تنکے سے زمین کرید رہا ہے۔ شکل و صورت سے وہ کسی طور پر مجرم نہیں لگ رہا تھا۔ اس کا تعلق اچھے گھرانے سے معلوم ہو رہا تھا۔ اکرم جو ابھی تک صرف دوسروں کی باتیں سن رہا تھا۔خود کسی سے کچھ نہیں پوچھا تھا۔
بے اختیار اس آدمی کی طرف چل دیا۔ قریب جا کر اسے سلام کیا۔ اس آدمی نے الجھے ہوئے دماغ کے ساتھ اکرم کی طرف گھور کر دیکھا اور دوبارہ زمین کریدنے میں مصروف ہو گیا۔ اکرم کو محسوس ہوا کہ اس آدمی کے جیل میں آنے کے پیچھے کوئی گہری کہانی موجود ہے۔ جسے جاننے کا اس کے دل میں اور زیادہ اشتیاق پیدا ہوا۔ لہٰذا پھر ہمت کر کے کہا، ”بھائی میں سائیکالوجی کا طالب علم ہوں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کس جرم کی بنا پر جیل میں آئے؟ کس غلطی نے آپ کی زندگی کو تاریک بنا دیا؟“ اس نوجوان نے دوبارہ غصیلی نگاہوں سے اکرم کی طرف دیکھا اور ناگواری سے بولا، ”کیا کرو گے تم جان کر؟ کیا تم مجھے میری زندگی کی تاریکی سے نکال دو گے؟“ اکرم جھٹ سے بولا، ”بھائی میں شاید آپ کو تو اس تاریکی سے نہ نکال سکوں لیکن میں آپ کی کہانی کو دوسرے نوجوانوں کے لیے سبق آموز بنانے کی ضرور کوشش کروں گا۔ تا کہ کہیں وہ بھی آپ جیسی کوئی غلطی کر کے مستقبل کے خوابوں کو اندھیروں میں نہ ڈبو لیں۔ بھائی دیکھیں، آپ اپنے آپ کو تو نہ بچا سکے لیکن اپنے تجربے سے دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔“ اکرم کی توجہ اس پر اثر انداز ہوئی۔
اس آدمی نے تقریباً چار منٹ کا طویل خاموشی کا وقفہ لیا اور اپنی کہانی سنانا شروع کی۔ ”میرا نام علی اصغر ہے۔ میں بی کام کا طالب علم تھا۔ مجھے بی کام کرنے کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن میں شوقیہ طور پر پڑھ رہا تھا۔ کیونکہ میرا باپ ایک بڑا زمیندار تھا اور ہم صرف دو بھائی تھے۔ میں بڑا تھا اور میرا بھائی ابھی صرف دس سال کا تھا۔ گھر میں مالی خوشحالی تھی۔ مجھے کسی نوکری کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ میں نے بھی اپنی زمینیں ہی سنبھالنی ہیں۔ والدین کا بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے میں اپنے باپ کے لیے مددگار بننا چاہتا تھا۔ اس وجہ سے میں زمینوں پر چکر لگاتا۔ مزارعوں کے کام کو دیکھتا۔ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا۔ میں اپنے والدین کا بڑا اور لاڈلہ بیٹا تھا جس کی وجہ سے میرے اندر تفاخر کا پیدا ہونا عام بات تھی۔ میری ایک اور بڑی کمزوری تھی کہ مجھے غصہ بہت جلد آتا۔ میں غصہ میں بے بس ہو جاتا۔ میرے لیے غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو رکھنا مشکل ہو جاتا۔ لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ میری یہ کمزوری ہی مجھے لے ڈوبے گی۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک دن ایک مزارعہ جو تقریبا میرا ہم عمر تھا۔ ہمارے فارم کے مویشی لے کر ٹیوب ویل کے نالے سے پانی پلانے کے لیے لے کر گیا۔ جانور پانی پینا شروع ہو گئے لیکن وہ لڑکا ان سے غافل ہو کر بڑے سکون سے درخت کے نیچے جا کر سو گیا۔ مویشی پانی پی کر ملحقہ کھیت میں جا کر چرنا شروع کر دیا اور کھیت کی فصل تباہ کر ڈالی۔ اطلاع ملنے پر میں فوراً موقع پر گیا۔ وہ لڑکا ابھی تک سکون سے خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ اس کی لاپرواہی یقیناً غصہ دلانے والی تھی۔ میرے دماغ کو تپ چڑھ گئی۔ میں نے زور سے ٹھوکر مار کر اسے جگایا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔ میری زبان سے گندی گالی پھسلی اور ساتھ ہی اس کے چہرے پر ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ جواباً اس لڑکے نے بھی ایسا ہی کیا۔ اسی گالی کے ساتھ میرے گال پر زور سے تھپڑ مار دیا۔
یہ اچانک رونما ہو جانے والا غیر متوقع سانحہ میری برداشت سے باہر تھا۔ میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا۔ قریب پڑا ڈنڈا پکڑ کر اسے مارنا شروع کر دیا۔ میں غصہ میں بے سدھ ہو چکا تھا۔ میری آنکھیں بند تھیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے کتنے ڈنڈے مارے اور سامنے والے کو کہاں کہاں لگے؟ ارد گرد موجود لوگوں نے مجھے پکڑا اور اس لڑکے کو بے ہوشی کی حالت میں اسپتال لے گئے۔ چند گھنٹوں بعد اس کے مرنے کی اطلاع مل گئی۔ اتنی دیر تک میرا دماغ بھی ٹھکانے پر آ چکا تھا لیکن اس وقت میری جھولی میں سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہ تھا۔ میں چاہتے ہوئے بھی گزرے وقت کو واپس نہ لا سکتا تھا اور نہ ہی اپنی غلطی کا ازالہ کر سکتا تھا۔ یہ میرے ہاتھوں سے کتنی بڑی خطا سرزد ہو چکی تھی۔ کسی کی جان لینے کا تو میرے دل میں کبھی خیال تک نہ آیا تھا۔ اس بات کی سمجھ تو بعد میں آئی کہ وہ نوجوان نیند کی حالت میں تھا۔ اس سے یہ فعل بھی غیر ارادی طور پر سرزد ہوا تھا۔ اس کی غلطی اتنی بڑی نہیں تھی کہ میں اس کی جان کا دشمن بن جاتا۔ پولیس نے مجھے اپنی حراست میں لے لیا۔
میرے والد نے مقتول کے لواحقین سے صلح کی کئی بار کوشش کی۔ انہیں زمین، پیسہ، ہر طرح کا لالچ دیا لیکن وہ اس صلح پر راضی نہیں ہوئے اور قصاص پر ڈٹے رہے۔ اب میں سزائے موت کا قیدی ہوں۔ جس ایک گالی اور ایک تھپڑ کو برداشت نہ کر کے میں نے اپنی زندگی تاریک کر لی۔ مستقبل کے لیے دیکھے گئے انگنت خواب چکنا چور کر لیے۔ جس کی وجہ سے اب مجھے صرف ایک لمحے کا انتظار ہے اور وہ لمحہ ہے، جب میرے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالا جائے گا۔ ایسی گالیاں، بلکہ اس سے بھی بدتر گالیاں، تھپڑ اور ٹھڈے یہاں روز میرا مقدر بنتے ہیں۔ لیکن میں یہ سب کچھ سہنے کے لیے مجبور ہوں۔
اب میں روز خود ہی اپنی بے بسی کا تماشا دیکھتا ہوں اور ہر پل لفظ کاش! کے گھیرے میں رہتا ہوں۔ کہ کاش! وہ ایک گالی اور تھپڑ برداشت کر لیتا جو میرے اپنے ہی عمل کا ردعمل تھا۔ ایک پل کی غلطی سے میں نے ایک انسان کے قتل کے ساتھ ساتھ نہ صرف اپنا آپ ختم کر لیا بلکہ اپنے والدین کو بھی ان کے تاحیات نہ ختم ہونے والا درد دے دیا۔“ آنسو ٹپ ٹپ علی اصغر کی آنکھوں سے گر رہے تھے۔ پھر وہ اکرم کے دونوں ہاتھ پکڑ کر ملتجائیہ انداز میں کہنے لگا، ”میں تو ان سلاخوں کی قید سے زیادہ اپنی بے بسی کی قید میں اسیر ہوں لیکن آپ آزاد اور کچھ کرنے کے قابل ہیں۔ آپ جہاں تک ہو سکے نوجوانوں میں زیادہ سے زیادہ یہ شعور اور آگاہی دیں کہ اپنی نوجوانی کے جوش میں اپنے غصہ اور جذبات کو اپنی عقل پر حاوی نہ ہونے دیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری ایک پل کی غلطی نہ صرف کسی دوسرے گھر بلکہ تمہارے اپنے گھر کے چراغ کو بھی گل نہ کر دے۔“