تعارف: اختر عباس نے بچوں کے لیے لکھنے سے اسے قلمی سفر کاآغاز کیا۔ اب تک سینکڑوں کہانیاں لکھ چکے ہیں۔ بچوں کے لیے یہ کتابیں، فوکسی، زندگی کے آداب، وننگ لائن پر کون پہنچتا ہے، بہت مشہور ہوئیں۔ یونیسیف کی طرف سے پانچ مرتبہ ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔آپ کی تصانیف کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ہ مقدم ، پھول ، اُردو ڈائجسٹ سمیت کئی قومی جرائد کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔اختر عباس کا نام کسی بھی صحافتی پراجیکٹ کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ میگزین جرنلزم میں اختر عباس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔میگزین کی دنیا میں جدت پسندی لانے کا سہرا اختر عباس کے سر ہے۔پیغام کے قارئین کے لیے ہم نے اختر عباس صاحب سے وقت لیا۔انھوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے پیغام کے لیے وقت نکالا۔تفصیلی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔
س :کامیابی کے پیچھے کیا راز ہے ؟ ج:میں نے پہلے سے ارادہ کررکھاتھا کہ جہاں بھی کام کروں گا ایسے کروں گا کہ میرے بعد میری کمی محسوس کی جائے ۔ مطلب دل لگا کر ، دماغ لڑا کرکام کیجیے۔ لوگ آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں تو آپ سولہ گھنٹے کام کریں ۔ رسک ہمیشہ میرے پیچھے آیاہے۔ میں نے مشکل حالات سے لڑنا سیکھ لیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وقت کا سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا ایڈیٹر تھا۔ س:مختلف تعلیمی و صحافتی اداروں میں کام کرنے کاتجربہ کیسا رہا ؟ ج: لوگ کہتے ہیں کہ بڑے ادارے میں ہوں گے تو آپ بڑے ہوں گے۔ میرا نقطۂ نظر یکسر مختلف ہے۔ ادارے لوگوں سے ہیں۔ لوگ اداروں سے نہیں۔ آپ لوگوں کی قدر کریں ، چھوٹے ادارے بڑے بن جائیں گے۔ آپ لوگوں کی قدر کرنا چھوڑ دیں ، بڑے ادارے چھوٹے ہوجائیں گے۔ س: بچوں کی تربیتی نشستیں کرواتے ہیں ، کیا کوئی فائدہ ہوتاہے ؟ ج:پھول کے ایڈیٹر کی حیثیت سے میں نے ایک مقابلہ کروایا تھا۔ اس میں بچوں سے کہاگیاکہ اگر فتح مکہ کے موقع پر اخبارات ہوتے تو کیسے شائع ہوتے ۔ یقین کیجیے وہ اتنا شاندار مقابلہ تھاکہ پنجاب یونیورسٹی شعبہ جرنلزم نے بعد میں اس پر نمائش کاانعقاد کیا۔ یہ ایک تخلیقی سرگرمی تھی۔ اس میں کامیاب ہونے والے بچے بعد میں سیالکوٹ بورڈ میں بھی پوزیشن ہولڈر بنے۔ بعد ازاں دونوں بھائی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں گئے۔ آپ کو خوشی ہوتی ہے جب آپ کو پتہ چلتاہے کہ بچوں نے کچھ حاصل کیا ہے۔ س:نوائے وقت میں رہے ، پھول کے ماہنامہ پھول کو اس زمانے میں عروج حاصل ہوا کیا وجہ تھی ؟ ج: میں نوائے وقت میں تھا تو مجھے مجید نظامی صاحب کہنے لگے کہ میرے دوستوں کے ہاں میرے سب اخبارات جاتے ہیں ۔ کسی نے آج تک کسی اخبار پر بات نہیں کی ، جب بھی آتے ہیں پھول کا ذکر کرتے ہیں ۔ کہنے کامقصد یہ ہے کہ مقام محنت کے بعد ملتاہ اور محنت نظر آتی ہے۔ اپنے آپ کو منواتی ہے۔ س:مجید نظامی صاحب سخت گیر باس مشہور ہیں کیا ایسا ہی ہے ؟ ج:نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ نظامی صاحب ہمیشہ شفقت سے پیش آتے تھے۔ ایک بار کچھ ناراض ہوئے تھے۔ میں نے ٹائٹل پر بختاور کی تصویر لگائی تھی ۔ بختاور بے نظیر بھٹو کی بیٹی ہیں۔ نظامی صاحب کہنے لگے کہ ”یہ اچھا نہیں کیا” میں نے کہا نظامی صاحب کیا ہم نے طے کرلیا ہے کہ یہ مسلم لیگ کا پرچہ ہے۔ کہنے لگے نہیں۔ میں نے کہا کیا ہم نے طے کرلیا ہے کہ ہم سندھ میں نہیں جائیں گے ؟ کہنے لگے نہیں ۔میں نے کہا میں نے ذوالفقار بلتی کو کہہ کر خصوصی فوٹو شوٹ کروایاتھا۔ذوالفقار بلتی (مرحوم) بعد میں نواز شریف صاحب کے ذاتی فوٹو گرافر بنے۔ جب وہ ٹائٹل چھپ گیا تو بلتی نے دوبارہ ایک فوٹو بنائی ۔ جس میں ائیرپورٹ پر آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو پھول دیکھ رہے تھے۔ یہ تصویر دی نیشن اور نوائے وقت میں چھپی تھی ۔ نظامی صاحب نے مجھ سے معذرت کی ،یعنی اتنے اچھے انداز میں تسلیم کیا۔
Akhtar Ababs
ان بارہ سالوں میں ایک مرتبہ بس یہ واقعہ اس طرح کاپیش آیا ۔ میں آپ ایک اور واقعہ سنانا چاہوں گا۔ میری والدہ محترمہ عمر ہ پر جارہی تھیں۔ میرا بھی دل چاہا،میں نے بھی جانے کی تیاری کرلی۔ میں ائیرپورٹ کے لیے تیار ہورہاتھا کہ دفتر سے فون آگیا، کہاگیاکہ صاحب یاد کررہے ہیں۔ مجھے بہت عجیب سا لگا۔ خیرمیں پہنچا تو نظامی صاحب پوچھتے ہیں جارہے ہو ؟ میں نے کہا جی ! کہنے لگے کہ اچھا حاکم صاحب سے ملتے جائیے گا۔ حاکم صاحب اکائونٹس میں ہوتے تھے ۔ مجھے عجیب سے سا محسوس ہوا۔ میں حاکم صاحب کے پاس گیا تو انہوںنے پانچ ہزار روپے دیے اور کہایہ صاحب کی طرف سے ہیں ۔ اس وقت میری جیب بالکل خالی تھی ۔ ایسا واقعہ بھی ہوگا میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ س:بچپن میں کبھی ایسا محسوس ہواتھاکہ ایک دن معاشرے میں نام ہوگا، مقام ہوگا؟ ج:نہیں کبھی نہیں ، جب قول اختری سوشل میڈیا پر آنے لگے لوگ حوالہ دیتے تھے ۔ کہیں سے سن کر اچھا لگتا تھا۔ پہلی دفعہ مجھے اچھا تبصرہ مرزا ادیب کی طرف سے ملاتھا۔ میرا آرٹیکل چھپا، ان دنوں مجھے پانچ سو روپے ملا کرتے تھے۔ مرزا ادیب کہنے لگے اختر عباس میں جدی پشتی لاہور ہوں ، لاہور کبھی بھی اتنا خوبصورت نہیں تھا۔ جتنا تمہاری تحریر نے اسے بنادیاہے۔ مجھے ریڈیو کی طرف سے گانے لکھنے کی پیشکش کی گئی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ریڈیو کے لیے لکھنا اعزاز سمجھا جاتاتھا۔ میں نے انکار کردیا مجھے لگاکہ پورے کیرئیر میں یہ گانے کبھی فٹ بھی نہیں ہوںگے۔ میں کیا بتائوں گا ۔ میں نے کیوں لکھے ، میں نے اتنے گھنٹے کیوں لگائے۔ میں جا ن چکاتھا کہ میرے وقت کی قیمت ،گانے لکھنے سے پہلے گانے سننا بھی پرنے تھے ۔ یہ ایک مشکل کام تھا۔ سو میں نے انکار کردیا ۔ س:کوئی ایسی خواہش جو پوری نہ ہوئی ہو؟ ج: نہیں ،میں نے کبھی ایسی خواہش پالی ہی نہیں ۔ اب جیسے جیسے عمر بڑھ رہی ہے ۔ مجھ میں غصہ کم ہو رہاہے۔ لوگوں کاپیار دیکھ کر خوش ہوتاہوں ، سرشاری کی کیفیت ہوتی ہے جب کوئی آپ کا حوالہ آپ کی غیر موجودگی میں دیتاہے مغرور نہیں رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جو ش،غصہ کم ہو رہاہے۔ س:کیا اختر عباس بدل رہاہے ؟ ج:نہیں اسے بدلنانہیں چاہیے۔ دن بہ دن عاجزی و انکساری کی کیفیت طاری ہو رہی ہے۔ س:کامیاب زندگی گزاررہے ہیں کیا احساسات ہوتے ہیں؟ ج:دیکھیں میں یقین سے کہہ سکتاہوں میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں بہت چاہا گیا۔ مطلب بچے آپ سے پیار کریں۔ لوگ اپنی خوشی میں مدعو کریں ، خوبصورت لمحات اور احساسات ہمیشہ میرے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ س: بچوں کے ادب سے دو ری پر ہیں ادیب کیا وجوہات ہیں ؟ ج:اس کی دو وجوہات ہیں ۔ ایک تو لوگوں میں اس کی بنیادی اہلیت موجودنہیں ہے۔ مطلب بچوں کے لیے لکھنے کے لیے آپ کاویل ریڈ (Wellread) ہونا ضروری ہے۔لکھنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ بچوں کو دینا کیا چا ہ رہے ہیں۔ ہم لوگ کہانی برائے کہانی لکھ رہے ہیں۔ کل میں ایک کتاب پڑھ رہاتھا ایک صاحب بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے ہیں۔ لکھا تھاایک شیر بھوکاتھا وہ جنگل میں گیا ، لومڑی سے ملا اور ان دونوں نے مل کر شکار کرنا شروع کردیا۔ اس طرح سے ان صاحب نے کہانی کااختتام کردیا۔ اس طرح کی صورت حال دیکھ کر بھی دکھ ہوتاہے کہ آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کیا ڈیلیور کررہے ہیں۔ س:بچوں کے ادب میں معاوضہ کیوں نہیں ؟ ج: یہ نقطۂ نگاہ غلط ہے کہ بچوں کا ادب بکتانہیں۔ ہاں البتہ یہ بات ضروری ہے کہ معیاری چیز بکتی ہے ۔ میں نے خود چند دن پہلے اپنے بچوں کے لیے دس کتابیں ہزار روپے مالیت کی خریدیں ۔ آپ ادارہ مطبوعات طلبہ کی صورت حال دیکھ لیجیے ۔ وہاں میری کتابوں کے آٹھ ایڈیشن بک چکے ہیں۔ گورنمنٹ نے میری چار پانچ کتابیں اپنی لائبریریز کے لیے منظور کی ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم اپنے طور پر یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ہم اچھے ادیب ہیں ، مثال کے طور پر فرخ شہباز صاحب کہیںمیں اچھا لکھتاہوں ،ایسے نہیں آپ کی تحریر بولنی چاہیے۔ فیصلہ پڑھنے والے نے کرنا ہے۔ بچوں کا ادب کیوں اس قدر پیچھے ہے ۔ میں ایک کتاب دیکھ رہاتھا۔ باہر لکھاتھا کہ دلکش کہانیاں ، اندر ایک بھی کہانی میں دلکشی نظر نہیں آئی۔ یوں کہہ لیجیے کہانی پن ختم ہو رہاہے۔ اچھی کہانیاں دینا شروع کردیں۔ چھ ماہ بعد لوگ آپ کے ساتھ جڑ جائیں گے۔ س:زمانہ طالب علمی میں مدیر رہے ہیں ؟ ج:جی میں ماہنامہ ہمقدم کا مدیر رہاہوں۔میں یونیورسٹی میں ماسٹرز کا طالب علم تھا۔ ہمقدم کندھوںپر اٹھا کر لاتاتھا۔ میری زندگی کے خوبصورت سال جمعیت میں گزرے ہیں۔ میرے عہد کے بڑے بڑے لوگوں نے اس بات سے انکار کیاکہ وہ جمعیت میں رہے۔ لیکن مجھے فخر ہے ان سالوں پر ۔ س:نئے لکھنے والوں کے لیے کوئی پیغام ؟ ج:سب سے پہلے پڑھیں۔ لکھابننے کے چکر میں نہ پڑیں۔ پہلے پڑھیں ،اپنی رائے بنائیں تاکہ کسی کو چیلنج کرسکیں۔ مگر بغیر مطالعہ کے نہ ہی آپ اچھے لکھاری بن سکتے ہیں نہ ہی کوئی مدلل رائے بنا سکتے ہیں۔