لندن (جیوڈیسک) غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق محترمہ آنگ سان سوچی برطانیہ کے ایک معروف نشریاتی ادارے کے پروگرام میں شریک تھیں۔ پروگرام کی خاتون میزبان مشال حسین تھیں جنہوں نے آن سانگ سوچی پر سخت سوالات کی بوچھاڑ کر دی اور انھیں آڑے ہاتھوں لیا۔ محترمہ کیلئے کو کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ وہ سوالوں کے کیا جواب دے۔ اپنی معتبر شخصیت سے دنیا بھر میں مشہور رہنما آنگ سان سوچی اس موقع پر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور یہاں تک کہہ دیا کہ ’انھیں کسی نے بتایا کیوں نہیں کہ ان کا انٹرویو ایک مسلمان خاتون لے گی‘۔
رپورٹ کے مطابق مشال حسین نے انٹرویو کے دوران سوچی سے کہا کہ وہ میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام اور اسلام مخالف جذبات کی مذمت کریں۔ اس کے جواب میں آنگ سان سوچی کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں میانمار میں رہنے والے بدھ مذہب کے پیروکاروں نے بھی بڑی تعداد میں ہجرت کی۔ یہ سب کچھ آمرانہ حکومت کے دکھوں کا نتیجہ ہے۔
واضح رہے کہ آنگ سان سوچی کو کمزورں کی طاقت قرار دیتے ہوئے 1991ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ آنگ سان سوچی برما میں جمہوریت کے لیے بہت کوششیں کیں۔ انہوں نے مارٹن لوتھر کنگ اور مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفلے پر عمل کرتے ہوئے ملک بھر میں پرامن ریلیاں نکالیں، تاہم برما میں بدھ پرستوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام پر انہوں نے آج تک کسی قسم کی کوئی مذمت نہیں کی ہے۔