عدم برداشت اور فرقہ واریت

Anger

Anger

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تم نے کسی کو سب کے سامنے نصیحت کی تو تم نے اْسے بگاڑ دیا اور اگر تم نے کسی کو تنہائی میں نصیحت کی تو تم نے اْسے سنوار دیا۔ ایک آدمی کو غصہ بہت آتا تھا، غصے میں بے قابو ہو کر وہ برا بھلا کہتا، جب غصہ اترتا تو اسے پشیمانی ہوتی، وہ غصے پر قابو پانا چاہتا تھا لیکن کامیاب نہ ہوتا، ایک دن اس نے سنا کہ دوسرے گاؤں میں ایک عالم رہتا ہے لوگوں کو مسئلوں کے حل بتاتا ہے اس نے سوچا چلو میں بھی اپنا مسئلہ پیش کر کے دیکھتا ہوں شاید کچھ تدبیر نکل آئے۔

وہ اس عالم کے پاس گیا اور اسے بتایا: “مجھے بے حد غصہ آتا ہے۔”عالم نے کہا: “جب تمہیں غصہ آئے تو تم جنگل میں جا کر درخت میں کیل ٹھونک دیا کرو۔”آدمی نے کہا: “یہ کونسا حل ہے؟۔” عالم نے کہا: “تم ایسا کرو تو سہی۔”آخر اس نے یہی کیا اسے جب بھی غصہ آتا، وہ جنگل کی طرف دوڑتا اور تیزی سے کیلیں درخت میں ٹھونکتا جاتا۔ آخر دن گذرتے گئے اسے جب غصہ آتا، وہ یہی عمل دہراتاآخر ایک دن اس کا غصہ کم ہو کر ختم ہو گیا اور اس نے جنگل جانا چھوڑ دیا۔ ایک دن وہ دوبارہ عالم کے پاس گیا اور کہا: “آپ کی بات پر عمل کر کے میرا غصہ ختم ہو گیا ہے۔”عالم نے کہا: “مجھے اس جگہ پر لے چلو جہاں تم نے کیلیں ٹھونکی ہیں۔

وہ دونوں وہاں چلے گئے۔ عالم نے دیکھا کہ ایک درخت تقریباً آدھا کیلوں سے بھرا پڑا ہے، عالم نے کہا: “اب ان کیلوں کو نکالو۔”اس نے بہت مشکل سے وہ کیلیں نکال لیں تو دیکھا کہ وہاں چھوٹے بڑے بے حد سوراخ تھے۔ عالم نے کہا: “یہ وہ سوراخ ہیں جو تم غصے میں آ کر لوگوں کے دلوں میں کرتے تھے۔ دیکھو کیل تو نکل گئے مگر سوراخ باقی ہیں۔”وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اس نے اللہ اور اس کے بندوں سے معافی مانگی اور عالم کا شکریہ ادا کیا جس نے اسے آئینہ دکھایا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ بولتے ہوئے دیکھ لیا کریں کہ ہم نے لوگوں کے دلوں میں کیلیں تو نہیں ٹھونکیں۔ اگر وہ کیلیں نکل بھی گئیں تو نشان باقی رہ جائے گا۔ یہ گزرے وقتوں کے اُن نیک لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جن کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس رہتا تھا، خوف خدا کے باعث راہ نجات کے طریقے دھونڈھتے تھے۔ مگر آج کے انسان میں برداشت بالکل ختم ہو چکی ہے۔

چھوٹی چھوٹی باتوں پر نتھنے پھُلا لینا معمول بن گیا ۔اپنے روز مرہ معمولات میں ذرا سی بات خلاف طبیعت ہوئی نہیں اور منہ سے طوفان بدتمیزی جاری ہوا کہ ہوا دفتر ہو آیا کہ کاروباری معاملات، دوران ڈرائیونگ یا راہ چلتے بس ہم لوگ تاک میں رہتے ہیں کہ دوسرا غلطی کرے اور ہم آستینیں چڑھا کر اُس پر چڑھ دوڑیں۔ بڑے بڑے ماہرین نفسیات اور تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ملکی حالات مہنگائی اور لاقانونیت کی وجہ سے انسان نفسیاتی مریض بنتا جا رہا ہے اور لوگ فرسٹریشن کا شکار ہیں اس لئے جلد غصہ آنا، عدم برداشت اسی وجہ سے معاشرہ میں عام ہوتی جارہی ہے ماہرین کی رائے اپنی جگہ درست اور اہمیت کی حامل ہے، سوچااورجانچا جائے تو ماہرین کی بات بھی درست ہے، مگر بحیثیت مسلمان ہم اپنے دین کا مطالعہ کریں تو ہمیں بہترین رہنمائی مل سکتی ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا غصہ سے پرہیز اور صبر کی تلقین کی ہے۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

اس ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہت سی احادیث سے بھی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہیں جن میںبہت سی قرآنی آیات کا ورد بھی پڑھنے کو کہا گیا ۔ ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ کی حالت میں اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جائو اور بیٹھے ہو تو لیٹ اور اسی طرح حالت غصہ میںایک جگہ تعوذ پڑھنے کا فرمایا ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ جھگڑالو شخص ہے، اسی طرح دوسری حدیث میں ارشاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ تم میں سے جو شخص حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے تو میں جنت میں اُس کے اعلیٰ درجے کا ضامن ہوں، غرضیکہ اگر جائزہ لیا جائے تو بے شمار ایسی احادیث اور کلام الہی کی بہت سی آیات ہیں جن میں صبر اور برداشت کی تلقین کی گئی کہ جن پر جامع اور مفصل لکھا جاسکتا ہے۔

انتہائی دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان تو کہلاتے ہیں مگر کیا کبھی ہم نے سوچا ہم اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اور اپنے پروردگار کی ان باتوں پر کتنا عمل پیرا ہیں۔ ہم اپنے آپ کو عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہلوانا اور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رنگ میں رنگنے کو باعث سعادت و افتخار سمجھتے ہیں مگر اُن کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے پس و پیش سے کیوں کام لیتے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی فرقہ نہیں وہ صرف مسلمان تھے مگر ہم لوگ کتنے فرقوں میں بٹ گئے، یہ جانتے ہوئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح ارشاد فرمایا تھا، مجھے دکھ ہے کہ میری امت فرقوں میں بٹ جائے گی اور پھر اللہ کریم کا بھی فرمان ہے کہ۔” اے مسلمانوں آپس میں بھائی چارے سے رہو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو، آپس میں تفرقہ نہ رکھنا۔ ہم یہ سب ارشاد نبوی اور ارشاد خداوند کریم جانتے ہیں مگر پھر بھی ہم لوگ بعض نہیں آتے عام لوگوں کی کیا بات کی جائے یہاں تو ہم لوگوں میں دین پھیلانے والے علماء کرام اور مفتیان کرام جن لوگوں سے ہم دین کی اصطلاح جاننا چاہتے ہیں وہ ہم لوگوں سے زیادہ دین کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں مگر وہ خود ایک دوسرے کو غلط صحیح ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں بہت سے ایسے علماء کرام ہیں جو خود کو راہ حق پر گردانتے ہیں اور دوسرے علماء کو گمراہ کہتے ہیں جن کی وجہ سے فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہیں۔

زیادہ دور نہ جائیں آپ آ ج کے جدید دور کی سہولت سے استفادہ اٹھاتے ہوئے انٹرنیٹ پر سرچ کرسکتے ہیںاور بہت سی ایسی ویڈیا اور تقاریر دیکھ سکتے ہیں کہ ایک فرقہ کے علما دوسرے فرقہ سے اپنا عقیدہ درست ظاہر کرنے کیلئے بحث کر رہے ہیں اور یہ بحث بڑھتے بڑھتے جھگڑوں تک پہنچ جاتی ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے فراموشی صاف ظاہر کرتی ہے۔ میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات تو یہ ہیںکہ جن پر بوڑھی عورت کوڑا پھینکتی تو آپ تبسم فرماتے، طائف میں نماز پڑھتے ہوئے آپ کی گردن مبارک پر اوجڑی رکھ دی جاتی اور آپ کو پتھروں سے لہولہان کیا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بھی اُن کے حق میں دعا فرماتے۔ اپنے سب سے پیارے چچا کا قاتل جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش ہوتا تو اُسے معاف کردیتے ،مگر ہمارے علماء اور مفتی کرام تعلیمی اور علمی بحث پر مناظرہ کرتے کرتے لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔میرا ان سب سے یہی ایک سادہ سا سوال ہے کیا یہ ہمارے دین کا خلاصہ ہے؟۔ مجھے کوئی ایک بھی ایسی دلیل یا بحث ثابت کر دیجئے کہ جس میں کبھی بھی نبی کریم اور صحابہ کرام نے صبر اور برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوڑا ہوں؟۔ یقینا کسی کے پاس کوئی اسی دلیل یا شواہد نہیں تو پھر ہم کیوں اپنے پیارے نبی کی تعلیمات فراموش کرکے اپنی زندگی کو مشکل سے مشکل تربنا رہے ہیں۔

ابھی بھی وقت نہیں گزرا آئیے ہم سب مل کر پھر سے اکٹھے ہو جائیں اور اپنے ملک کی سلامتی اور دین اسلام کی سر بلندی کیلئے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل شروع کر دیں، آپسی جھگڑے اور ذرا ذرا سی باتوں پر لڑائی جھگڑوں کو اللہ اور اُس کے رسول کیلئے ختم کر کے اپنے اندر کے غصہ قابو کریں، اپنے اندر صبر اور برداشت کا مادہ پیدا کریں۔

اس کا سب سے پہلا قدم ہمیں فرقوں سے نکال کر صرف اور صرف مسلمان بننا ہوگا جس میں نہ کوئی وہابی ہو نہ بریلوی نہ دیو بندی ہوں صرف سچے عاشق رسول اور پکے مسلمان ہوں۔ اللہ ہم سب کو اللہ اور اُس کے رسول کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

Amjad Ashraf

Amjad Ashraf

تحریر : امجد قریشی