سیاچن دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ ہے تو دوسری طرف قطبین کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا گلیشیئر بھی ہے۔ یہ گلیشیئر دنیا کے ایک بڑے دریا، دریائے سندھ جس کی لمبائی 3200 کلومیٹر ہے، کو پانی فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ دریائے سندھ کے اردگرد رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا دریائی زرعی نظام بھی پھیلا ہوا ہے۔ 1984ء تک دنیا سیاچن کے نام سے اس قدر واقف نہ تھی جس قدر اس کے بعد ہوئی۔ اپریل 1984ء کے بعد تو اس خطے کا تعارف دنیا میں پھیلتا ہی چلا گیا۔
سیاچن اصل میں بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی جنگلی گلاب کے ہیں۔ یہ پھول یہاں کثرت سے کھلتا ہے۔ سیاچن گلیشیئر کا نام دنیا نے اس پر 1984ء میں بھارتی قبضہ کے بعد ہی سننا شروع کیا جب پاکستان مجبوراً یہاں فوجیں لانے پر مجبور ہوا تھا۔ 1984ء تک دنیا کے تمام نقشوں میں سیاچن پاکستان کا ہی حصہ تھا لیکن بھارت اس پر کشمیر و سرکریک اور مشرقی پاکستان کی طرح جبراً قابض ہوا۔ مشرقی پاکستان کو تو اس نے بنگلہ دیش بنانے کے بعد چھوڑ دیا لیکن دیگر خطوں کی طرح سیاچن پر مستقل قابض ہو کر بیٹھ گیا تو آج تک اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوا اور آمادہ ہو بھی کیوں؟ جب وہ پاکستان کی گردن دبائے رکھنے کیلئے کشمیر کے راستے اول دن سے سرگرم ہے تو پھر وہ سیاچن کو کیوں چھوڑے گا جہاں سے وہ پاکستان کے پانی کے سب سے بڑے ذریعے سندھ کو بھی کنٹرول کر سکتا ہے۔
اس سب کے باوجود پاکستان کے کچھ ”اعلیٰ دماغ” پاکستان سے ہی عموماً کہتے پھرتے ہیں کہ سیاچن کو خالی کر دیا جانا چاہئے کیونکہ وہاں رہنے سے سوائے جانی و مالی تباہی کے اور تو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن یہ وہ مشورہ بھارت کو نہیں دیتے جو سارے سیاچن اور اس کے پانچوں دروں اور راستوں پر قابض ہے اور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
چند روز پہلے جب ہندو دنیا بھر میں اپنا مقدس مذہبی تہوار دیوالی منا رہے تھے تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی یہ تہوار منانے پہلے بدترین سیلاب سے سونامی کی طرح تباہ و برباد سرینگر پہنچا۔ وہاں جشن منانے کے بعد اس نے وہیں سے سیاچن کا رخ کر لیا اور پھر اپنے فوجیوں کے ہمراہ مل کر دیوالی دیے جلائے۔
ہندوئوں کے ہاں دیوالی اکتوبر و نومبر کے درمیانی چاند کے طلوع کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ ہندو کہتے ہیں کہ یہ تہوار اصل میں اندھیرے پر روشنی، نادانی پر عقل، برائی پر اچھائی اور مایوسی پر امید کی فتح و کامیابی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہندو اس تہوار پر بڑھ چڑھ کر دیئے جلاتے ہیں۔ یہ دیئے گھروں کے اندر اور باہر گلیوں، بازاروں میں رکھے جاتے ہیں اور پھر دولت و خوشی کی دیوی ”لکشمی” کی پوجا کی جاتی ہے۔ بھارت میں نریندر مودی کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ تہوار پہلی بار منانے کا موقع میسر آیا تو وہ سیدھا سرینگر کے راستے سیاچن کے پہاڑوں پر پہنچا اور پھر وہاں موجود اپنے فوجیوں کا خوب حوصلہ بڑھایا کہ پاکستان کے خلاف ڈٹے رہو۔ نریندر مودی صرف سیاچن پر ہی متحرک نہیں تھا بلکہ بھارت میں بھی اس نے اپنا مشن جاری رکھا ہوا تھا۔
اس بار یہ پہلا موقع تھا کہ ہندو اس تہوار پر تیل کے چراغ ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو زندہ جلا رہے تھے۔ پہلے راجستھان میں 16 سالہ حافظ قرآن بچے کو باندھ کر زندہ جلایا گیا تو حالت یہاں تک پہنچی کہ نئی دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام احمد بخاری تک بھی ہندوئوں کے ہاتھ جا پہنچے جہاں انہیں دوران نماز میں زندہ جلانے کی پوری کوشش کی گئی۔ یہاں تو بس اللہ کی مشیت و مرضی کچھ اور تھی کہ امام صاحب بچ نکلے ورنہ منصوبہ پر تو پوری طرح عمل ہو ہی چکا تھا۔ یہاں سب سے حیرت والا معاملہ دیکھئے کہ حملہ آور کو نمازیوں نے موقع پر پکڑ لیا اور اسے پولیس کے بھی حوالے کر دیا لیکن ابھی تک ”نامعلوم” ہے اور اس کا نام تک میڈیا کو پتہ نہیں چل سکا۔ جب تک وہ عام لوگوں یا تھانے کی حدود میں تھا وہ گونگا بنا رہا اور اس نے زبان تک نہ کھولی لیکن جب وہ محفوظ ہاتھوں میں پہنچ گیا تو نامعلوم ہو گیا۔
Diwali
دیوالی سے قبل بھارت نے پاکستان پر زبردست گولہ باری اور فائرنگ کر کے سخت پیغام دینے کی کوشش کی۔ نریندر مودی نے اس موقع پر کہا تھا کہ پاکستان سرحدی جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے لیکن ہم نے پاکستان کو ”ٹھیک ٹھاک” سبق سکھا دیا ہے۔ ساتھ ہی کہا کہ بھارتی مسلح افواج پاکستان کے خلاف جو کارروائی جب چاہیں کر سکتی ہیں۔ بھارت میں بی جے پی اسلام اور پاکستان دشمنی کے بل بوتے پر اقتدار میں آئی ہے۔ اس کا ثبوت گزشتہ ہفتے کا انتخاب اور اس کا نتیجہ بھی ہے۔ گزشتہ ہفتے ریاست مہاراشٹر میں کانگریس کی حکومت ختم ہوئی تو وہاں بی جے پی کی ریاست حکومتی قائم ہو گئی۔
مہاراشٹر کی ریاستی اسمبلی میں اس بار ایک نئی تبدیلی یہ آئی ہے کہ یہاں بھی مرکزی لوک سبھا کی طرح مسلم ارکان کی تعداد کم ہوئی ہے اور اب یہاں پہلے سے ایک رکن کم یعنی گزشتہ 10کے مقابلے میں اب 9ارکان ہیں۔ ریاست مہاراشٹر میں بھارتی مسلمانوں کی اکثریت کا ایک بڑا علاقہ حیدرآبادبھی واقع ہے جہاں سے بھارتی مسلمانوں کے ہر دلعزیز رہنما بیرسٹر اسد الدین اویسی اور ان کے چھوٹے بھائی اکبر الدین اویسی بھی تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں رہنما بھارتی ظلم و جبر کو للکارنے اور مسلمانوں کی غیرت و حمیت کو جھنجوڑنے میں ثانی نہیں رکھتے۔ اسی لئے تو شدت پسند ہندو بھی ان کے خون کے پیاسے رہتے ہیں۔ ان کے گھروں پر حملے، توڑ پھوڑ بلکہ ان کے قتل کے لئے بھی کئی حملے ہو چکے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کو درپیش اس صورت حال میں نیویارک ٹائمز نے اپنے گزشتہ ہفتے کے ایک کالم میں کچھ اظہار رائے کیا ہے۔
معاشی طور پر بچھڑے ہوئے اور کئی پہلوئوں سے سماجی طور پر محرومی و غربت کا شکار بھارتی مسلمانوں نے ہندوستانی سماج کے اندر رہ کر طویل جدوجہد کی ہے۔ عرصہ تک وہ کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کے ووٹ بنک کے طور پر استحصال کا شکار رہے اور اب مودی کے اچانک عروج اور 2014ء کے انتخابات میں زبردست فرقہ وارانہ صف آرائی نے مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کو صفر تک گھٹا دیا ہے۔اترپردیش میں جس کی آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے اور 20فیصد مسلم آبادی ہے، ایک بھی مسلم رکن پارلیمنٹ کو منتخب کرنے میں مسلمان ناکام ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف دہشت گردی سے لے کر لوجہاد (love jihad) تک ایک یا دیگر بہانوں سے انہیں مسلسل جنونی انداز سے نشانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ انتخابات ختم ہو گئے اور مودی کی پارٹی دہلی اور کئی ریاستوں میں انتہائی مضبوط پوزیشن میں ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو دانستہ طور پر اس کنارے پر دھکیلا جا رہا ہے۔ اس امید پر کہ وہ استقبال کے لئے تیار” عالمی دہشت” کے ہاتھ میں پہنچ جائیں گے۔ جو کوئی یہ خطرناک گیم کھیل رہا ہے اسے لازماً تباہ کن نتائج کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ سیاچن ہو یا بھارت کا کوئی دیگر حصہ یا اس پار کی دیوالی، نریندر مودی نے اپنے تمام تر پر پرزے خوب کھول کر دکھا دیئے ہیں ۔بھارت میں ہندتوا کا نظریہ پورے زور شور ہے۔مودے کے نظریے پر عمل درامد پر یقین رکھنے والے اب مسلمانوں کو ملک بھر میں ماضی کے ہندو قرار دے کر اپنے مذہب سے محروم کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔وشوا ھندو پریشد نے اس حوالے سے مہم کا نام گھر واپسی رکھا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس خطے کے ہندوئوں کے علاوہ سبھی مذاہب کے ماننے والے پہلے انہیں کے مذہب کے حاملین تھے لہذا اب ہندوئوں کو حق ہے کہ وہ سب مسلمانوں او ر عیسائیوں کو اگر وہ نہ مانیں تو جبری طور پر ہندو بنا دیں۔اس پر پھر بات ہو گی لیکن اب تو مودی نے جن عزائم کا اظہار اپنے عمل سے کیا ہے اس کا حل سب سے پہلے درپیش ہے۔