تحریر: عبدالرزاق ہفتہ بھر سے طبیعت لکھنے لکھانے کی جانب مائل نہیں ہو رہی ۔ عجب بے چینی نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے ۔ سوچ رہا ہوں اپنے شوق کی پٹاری کو بند کروں اور کوئی ایسا کام کروں جس سے آمدنی کا کوئی معقول ذریعہ ہاتھ آئے ۔عجب حیرت ہے سوچ کا یہ انداز اچانک کیوں در آیا۔ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ میں تو اس قبیل کے لوگوں میں سے ایک ہوں لکھنا جن کی گھٹی میں شامل ہے ۔اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری نمایاں حییثت میں حاصل کی تو ترقی کی جانب جانے والے بے شمارراستے میرے منتظر تھے ۔ چاہتا تو پر کشش نوکری حاصل کر سکتا تھا اور خواہش بیدار ہوتی تو بزنس کے میدان میں بھی نام کما سکتا تھا لیکن دل نہ جانے کیوں صحافت کی جانب مائل تھا ۔ اپنے اس شوق کی تکمیل کی خاطر آو دیکھا نہ تاو اور ایک رسالہ نکالنے کا پروگرام ترتیب دے ڈالا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد نصیب ہوئی اور میں اپنے اس منصوبے میں کامیاب ٹھہرا۔ کچھ ہی عرصہ بعد ایک ماہنامہ میرے کریڈٹ پر تھا ۔
اور میں دن رات اس میگزین کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش میں تھا اور اس مقصد میں خاطر خواہ کامیابی بھی مقدر ٹھہری۔پھر اچانک ہی تقدیر نے پلٹا کھایا اور تمام منصوبے ڈھیر ہو گئے ۔ میگزین کی جانب سے الحمرا ہال میں لوک فنکار نشیلا کے نام اک شام کا اہتمام تھا میں اس محفل کا روح رواں تھا ۔شوبز کے ستارے بھی اس پروگرام میں شریک تھے جن میں جان ریمبو اور مرحوم ببو برال نمایاں تھے ۔ محفل کے اختتام پر گھر جاتے سمے مجھے کچھ سر درد اور تھکاوٹ کا احساس ہوا تو میں نے راستہ میں ایک ڈاکٹر صاحب سے رجوع کیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے دوائی تجویز کی اور میں اسے لے کر گھر پہنچ گیا ۔
Honesty
شومئی قسمت کہ وہ دوائی ایکسپائرڈ تھی ۔ جونہی میں نے اسے حلق سے اتارا اس خوراک نے مجھے ایسا نڈھال کیا کہ طبیعت برسوں نہ سنبھل پائی اس منحوس لمحہ نے ایک ابھرتے صحافی کے کیرئیر پر ایسی نقب لگائی کہ اسے سنبھلنے میں کئی برس گزر گئے ۔ اک عرصہ بعد صحت یابی نے قدم بوسی کی تو دوبارہ پر جوش جذبہ کی روانی میں قلم ا ٹھایا اور اس عہد کی تجدید کی کہ پوری ایمانداری اور خلوص نیت سے صحافتی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی کوشش کروں گا اور قلم کی حرمت کا بخوبی احساس رکھوں گا اور پھر کوشش جاری رکھی کہ غیر معیاری تحریر سے پرہیز رکھا جائے ۔ قلم کی جنبش سے نکلے الفاظ خواہ مخواہ الزامات کی گردان پڑھنے سے محفوظ رہیں ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کے واقعات کو حقائق کی پوشاک پہنا کر قارئین کے سامنے رکھا جائے اور خدا کا شکر ہے ابھی تک اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوں اور قلم کی ناموس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہے ۔ہمیشہ یہی جستجو رہی جو بھی تحریر الفاظ کی صورت صفحہ قرطاس کی زینت بنے منفرد ہو ۔
اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوں یہ تو قارئین بہتر بتا سکتے ہیں۔ البتہ میرا نفس مضمون کوئی پڑھے نہ پڑھے میری بیوی بڑے شوق سے اسے پڑھنے میں مگن ہے ۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ محترمہ کالم پڑھتے پڑھتے ایسی نابغہ روزگار بن جائے گی کہ اس کی باتوں سے ہی کالموں کے شگوفے پھوٹنا شروع ہو جائیں گے ۔ایک دن گھر والی کالم پڑھتے پڑھتے بڑے مترنم لہجے میں پوچھنے لگی ۔ آپ کو کالم کا معاوضہ کیا ملتا ہے ۔ میں نے اس کے سوال کو سنا ان سنا کر کے اسے ادھر ادھر کی باتوں میں لگانے کی کوشش کی لیکن وہ جواب پر مصر رہی ۔ بالآخر مدلل گفتگو میری مجبوری ٹھہری اور میں نے عرض کیا جناب شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا ۔ میں تو اپنے ذوق کی آبیاری میں مگن ہوں اور سینکڑوں میرے دوسرے بھائی بھی اپنے اس شوق کو پروان چڑھانے میں مشغول ہیں۔بیگم صاحبہ زیر لب مسکرائیں اور میری ناقص عقل میں یہ نکتہ ہرگز نہ سمایا کہ یہ مسکراہٹ طنزیہ ہے یا میرے شوق کی حوصلہ افزائی ہے بیگم صاحبہ کو تو میں نے ٹال دیا مگر اندر سے اٹھنے والے طوفان نے ایسی ہلچل مچائی کہ میں کئی دن تک ان سرکش موجوں کی لپیٹ میں رہا ۔ خاندان والے کہتے ہیں کہ میں نے اپنا ٹیلنٹ ضائع کیا ۔
Rights
ایک سی ایس پی آفیسر بننے کے تمام جوہر میری ذات میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔ یار دوست بھی نالاں ہیں کہ میں ان کی طرح دولت کے ڈھیر جمع نہیں کر پایا ۔ ان سب نے مل کر میرے اندر ایک جنگ چھیڑ دی ہے اس جنگ میں کونسا نقطہ نظر فاتح قرار پائے گا میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ایک بات طے ہے اور جس کی مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ کہ اگر انسان کا کام اس کے ذوق سے ہم آہنگ نہ ہو تو زندگی کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں ۔ زندگی بے مقصد دکھائی دیتی ہے ۔ میں تو آج بھی ہزار طعنے، تشنوں کو دامن میں سمیٹنے کے باوجود اس بات پر قائم ہوں کہ میری نظر میں قلم کی نوک سے نکلے الفاظ کی چمک دمک چاند کی چاندنی سے بھی زیادہ ہے اور جو راحت و سکون مظلوم کے حقوق کی آواز بن کر قلم اٹھانے میں ہے ضمیر فروشی اور کم ظرفی کی چادر اوڑھ کر دولت کے انبار اکھٹے کرنے میں ہرگز نہیں۔میں جب اپنے جذبات ، احساسات اور بعض اوقات افکار کو مظلوموں کی آواز کے روپ میں ڈھلتے دیکھتا ہوں تو قلب و ذہن جس خوشگوار احساس سے معطر ہوتے ہیں اس کیفیت کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنا میرے بس کی بات نہیں ۔
البتہ ایک مقام ایسا آتا ہے جب دکھ اور تکلیف کا احساس روح میں تحلیل ہو جاتا ہے اور وہ مرحلہ تب آتا ہے جب دل کی گہرائیوں سے رقم کی ہوئی تحریر اخبار کی پالیسی کی بدولت رد کر دی جاتی ہے اور شائع ہونے سے قاصر رہتی ہے اور دوسرا آپ کے ہمعصر لکھاری حسد کی آگ میں جل کر آپ پر کاری وار کرتے ہیں اور پھر کئی دن تک کچھ تحریر کرنے کی جانب طبیعت مائل نہیں ہوتی ۔آخر میں ایک گزارش ہے میرے ایک ہم نام لکھاری ہیں گزشتہ دنوں ایک اخبار نے میری ایک تحریر امریکی سازش اور بے بس مسلمان کے عنوان سے ان کے نام شائع کر دی ۔ براہ کرم نوٹ فرما لیجیے میں سیاسی قلم کے عنوان سے لکھتا ہوں اور وہ منظر نامہ کے عنوان سے جلوہ افروز ہوتے ہیں اگر ان کی نظر سے میری یہ تحریر گزرے تو پلیز وہ بھی اخبار کو مطلع کر دیں۔