لاہور (جیوڈیسک) سابق وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف نے سپریم کورٹ کی جانب سے اپنی نااہلی کے فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہیں کی اور فوری طور پر اپنے عہدے سے ہٹ گیا لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایسے فیصلے کو بھی تسلیم کر لیا جائے۔ تاریخ میں ایسے فیصلوں کو تسلیم تو کیا گیا لیکن انھیں کبھی عزت نہیں ملی۔ ایسے فیصلوں کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
لاہور میں وکلا کنونشن سے خطاب میں سابق وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ میرا جرم کیا ہے؟ یہی کہ بیٹے کی نجی کمپنی سے تنخوا نہیں لی۔ بدقسمتی ہے کہ اسے ایسے فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس میں انصاف نہیں ہوا۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ ایسے فیصلے عدلیہ کے وقار پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں نواز شریف کی کسی سے نہیں بنتی۔ ممکن ہے مجھ میں کوئی کمی ہو، مگر لیاقت علی خان سے لے کر آج تک کسی کی تو بنی۔ ہمیں اس بیماری کا سراغ لگانا چاہیے جو 70 سالوں سے کھا رہی ہے، جس نے قانون کی حکمرانی کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ میاں محمد نواز شریف کا کہنا تھا کہ میری نااہلی کے فیصلے کو عوام نے تسلیم نہ کرتے ہوئے اپنا بھرپور ردعمل دیدیا ہے۔
انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے۔ اس کی زد ترقی و خوشحالی کے راستے پر پڑی۔ ماضی میں بھی اس طرح کا فیصلوں کا نشانہ بنتا رہا ہوں۔ غلط انداز میں کیا گیا یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔
نواز شریف نے وکلا کنونشن سے خطاب میں کچھ سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ قانون کی معمولی سی سوجھ بوجھ رکھنے والا پاکستانی بھی کچھ سوال پوچھ رہا ہے جن کے جوابات ملنا ضروری ہیں۔
سوال نمبر 1 : کیا نیب کو اپنے ضوابط سے ہٹ کر کام کرنے کے لیے عدالتی ہدایت دی جا سکتی ہے؟ سوال نمبر 2 : کیا سپریم کورٹ کے جج کے زیر نگرانی ٹرائل کورٹ آزادانہ کام کر سکتی ہے؟ سوال نمبر 3 : کیا عدالتی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا کہ ناصرف نیب کی کارروائی اور ٹرائل کورٹ کی نگرانی کے لیے عدالت کا جج مقرر کر دیا گیا ہو جو پہلے ہی مخالفت میں فیصلہ دے چکا ہو؟ سوال نمبر 4 : کیا ان جج صاحبان کو جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ دینے کا حق تھا، جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ دیکھی تک نہیں اور نہ اس پر بحث سنی اور نہ سماعت میں شریک ہوئے؟ سوال نمبر 5 : کیا ان جج صاحبان کو جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ دینے کا حق ہے؟ سوال نمبر 6 : کیا کبھی وہ جج صاحبان پھر سے حتمی فیصلے والے بینچ میں شامل ہو سکتے ہیں جو پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہوں؟ سوال نمبر 7 : کیا ہماری 70 سالہ تاریخ میں ایسا ہوا کہ کسی ایک مقدمے میں 4 فیصلے سامنے آئے ہوں؟ سوال نمبر 8: کیا واضح قانون کے علاوہ مطلب کے لیے کسی چیز کا سہارا لیا جا سکتا ہے؟ سوال نمبر 9 : کیا کسی بھی درخواست گزار نے دبئی کی کمپنی اور تنخواہ پر نااہلی کی استدعا کی تھی؟ سوال نمبر 10: کیا آج تک سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ہمہ وقت نگرانی کی ہے؟ سوال نمبر 11: کیا قومی سلامتی اور دہشت گردی سے ہٹ کر کسی معاملے کی تحقیق کے لیے خفیہ ایجنسیوں کو ذمہ داری سونپی گئی ہے؟ سوال نمبر 12 : کیا آج تک اس قسم کے الزامات کی تحقیق کے لیے اس طرح کی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی؟
سوال نمبر 13 : کیا آج تک کبھی ایسا ہوا کہ واٹس ایپ کال کے ذریعے تفتیش کرنے والوں کا انتخاب کیا گیا ہو؟
ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ کیا عوام کو اپنا اختیار استعمال کرنے کا موقع ملا؟ کتنا ستم ہے کہ پاکستان کے ووٹروں کیساتھ وہی سلوک ہو رہا جو ان کے نانا دادا کے ووٹ کیساتھ ہوا۔ تاریخ کے دھارے کو نہ بدلا تو ملک کی حادثے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ 70 سالوں پر محیط اس تاریخ کے دھارے کو اب موڑنا ہو گا۔ ہمیں ان سوراخوں کو بند کرنا ہوگا جہاں سے بار بار منتخب نمائندوں کو ڈسا جاتا ہے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ آج تک کوئی آمر آئین شکنی کی سزا نہیں پا سکا۔ آمروں کو عدلیہ نے آئین میں من پسند ترامیم کرنے کی کھلی چھٹی دیے رکھی اور آئین کا حلیہ بگاڑا۔