تحریر : علی رضا بالاخر سپریم کورٹ بھی حرکت میں آہی گئی۔پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دیگر جماعتوں کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے ملک کے بڑے بڑے لوگوں کو جن میں پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب ،حسن نواز،ان کی صاحبزادی مریم نواز، وزیر خزانہ اسحاق ڈار،ڈی جی ایف آئی اے،چیئر مین ایف بی آر،کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی ہے۔سپریم کورٹ اگر چھ مہینے پہلے ہی حرکت میں آ جاتی تو آج اس مسئلے کاحل نکل چکا ہوتا ۔پانامہ لیکس سیکنڈل نے دو سو سے زائد افراد کا چہرہ نقاب کیاہے۔تقریبا تمام ممالک اس مسئلے کا حل قانونی اور آئینی طریقے سے نکال چکے ہیں لیکن پاکستان میں یہ معاملہ لٹکایا جارہا ہے پانامہ لیکس سے ثابت ہوچکا ہے کہ پاکستان سے پیسہ باہر گیا ہے اور اس ملک کے بڑے بڑے لوگوں نے کرپشن کی ہے لیکن ہمارے یہاں سب کہہ رہے ہیں کہ ہم نے کوئی کرپشن نہیں کی اگر انہوں نے کرپشن نہیں کی تو اپنے آپ کو کٹہرے میں کیوں نہیں لارہے؟ احتساب سے کیوں گھبرا رہے ہیں ؟وہ یہ معاملہ چھ مہینوں سے کیوں لٹکا رہے ہیں؟۔
چیئر مین تحریک انصاف عمران خان صاحب چھ مہینوں سے پانامہ لیکس کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ عمران خان نے رائیونڈ میں جلسہ کرتے ہوئے پانامہ لیکس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھااورعمران خان صاحب نے اب تو2نومبر کواسلام آباد بند کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے لیکن حکومت کہہ رہی ہے کہ اسلام آباد بند نہیں ہونا چاہیے اس سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔لیکن افسوس کہ حکمران چھ مہینوں سے چپ تھے اگر اس وقت ہی پانامہ لیکس کا مسئلہ حل ہوجاتا تو پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد بند کرنے کی نوبت ہی نہ آتی لیکن حکومت پر احتجاج کا جلسوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور اب عمران خان کے پاس اب اور کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ چیئر مین تحریک انصاف عمران خان صاحب کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے لیے میدان میں اترے ہوئے ہیں لیکن حکومت احتساب سے گریز کرتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں پرجوابی الزام لگا رہی ہے حالانکہ حکومت کا کام الزام لگا نا نہیں ہوتا بلکہ قانون کے مطابق اقدامات اور فیصلے کرنا ہوتا ہے۔
عمران خان صاحب اور عوام اب اس مسئلے کاحل چاہتی ہے سب انتظار میںہیں کب یہاں پانامہ لیکس کا فیصلہ ہوگا کب یہاں احتساب ہوگا ۔احتساب نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں مسائل اور فساد برپا ہورہے ہیں جس سے ملک کو نقصان ہورہا ہے ۔اب سب کا احتساب ہونا چاہیے کیوں کہ احتساب کے بغیر مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔ملک میں کرپشن عروج پر ہے بتایا جارہا تھا کہ محکمہ صحت پنجاب میںایک ارب 65لاکھ کی کرپشن ہوئی ہے آڈیٹر جنرل نے بھی اپنی رپورٹ میں سرکاری محکموں میں اربوں روپے کے گھپلوں کی نشاندہی کی ہے۔جب ملک کے بڑے لوگ ملک کے بادشاہ ملک کے حکمران کرپشن کرتے ہوں اس ملک کو لوٹ رہے ہوں تو اس ملک کو کوئی نہیںبچا سکتا۔وہ ملک پھر تباہی سے بچ نہیں سکتا ۔قوم نے ان کو اس لیے منتخب نہیں کیا تھا کہ وہ اپنا کاروبار اور آگے بڑھا سکیں اپنے کاروبار کی ترقی کر سکیں وہ کرپشن کر سکیں ملک کو لوٹ سکیں وہ عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے الٹاعوام کے لیے نئے مسائل پیدا کریں ۔جو ادارے لوگوں کو انصاف دینے کے لیے بیٹھے ہیںاگر وہ خود ناانصافیوں میں شامل ہوں وہ خود کرپشن میں ملوث ہوں تو وہ کیسے لوگوں کو انصاف دیں گے۔
Gavel and Scale
ملک میں اگر لوگوں کے ساتھ عوام کے ساتھ ناانصافی ہورہی تو یہ ملک کے بڑے لوگوں کا حکمرانوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ لوگوں تک اپنی عوام تک انصاف پہنچائیں لیکن اگر حکمران خود ملوث ہوں تو پھرعوا م انصاف کا دروازہ کہاں جا کر کھٹکھٹائے گی عوام کو انصاف کون دے گا۔ ملک کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک کرپٹ لوگوں کا خاتمہ نہیں ہوتا ۔اس ملک میں تو کوئی جمہوریت نہیں صرف جمہوریت کے نام پر بے چاری عوام کا استحصال کیا جارہا ہے۔جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم کر رکھی ہے۔یہ ملک قرضے کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ان تین سالوں میںحکومت نے بدترین کارکردگی دکھاتے ہوئے تاریخ کا بڑا قرضہ لیا ہے اب تو اور قرضہ اہم سرکاری عمارتوں کو گروی رکھ کر لیا جارہا ہے۔حکمران قرضے لے کر سڑکیں بنا رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آتی کہ قرضے لے کر کیا ضرورت ہے سڑکیں بنانے کی۔اب پاکستان کا شمار کرپٹ ترین ممالک میں ہورہا ہے ۔ملک تاریکیوں میں جارہا ہے لیکن یہاں حکمرانوں کو اپنے کاروبار کی پڑی ہے۔ملک میں امیراب بھی امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب بھی غریب تر ہوتا جارہا ہے۔غریب بے چارہ انتہائی تنگ غربت کی زندگی گزار رہا ہے۔
اس کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل ہو گئی ہے۔مہنگائی اور غربت نے غریب لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے علاج نہیں کروا سکتے علاج کے لیے مہنگی دوائیاں نہیں خرید سکتے کھانے والی چیزوںکی قیمتیں بڑھ گئی ہیں بے روزگاری بڑھ چکی ہے نوجوان نوکریوں کے پیچھے دھکے کھا رہے ہیں ان کو نوکریاں نہیں مل رہی ان کو اب کون جواب دے گا ۔افسوس ہورہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو پیسے کی ہوس اور لالچ نے اندھا کر دیا ہے نہ کسی کو حلال کا خیال ہے نہ حرام کا خیال ہے ۔اب سب کا مقصد پیسہ کمانا ہی رہ گیا ہے۔پیسوں کی ہوس اور لالچ نے اتنا اندھا کردیا ہے کہ وہ بھول گئے ہیں کہ ہم نے ایک دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی پیش ہونا ہے۔اگر اس دنیا میں عیاری اور مکاری کر کے بچ بھی جاتے ہیں تو آخرت میں کوئی نہیں بچ پائے گا۔آخر ت میں ایک ایک پائی کا حساب دینا ہوگا۔حبیب جالب نے خوب کہا ہے۔
اے چاند یہاں نہ نکلا کر بے نام سے سپنے دیکھا کر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے اس دیس میں اندھے حاکم ہیں نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں ہے یہاں یہ کاروبار بہت اس دیس میں گردے بکتے ہیں کچھ لوگ ہیں عالی شان بہت اور کچھ کا مقصد روٹی ہے وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے مغرب کا راج ہی سچا ہے یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا اے چاند یہاں نہ نکلا کر