تحریر: پروفیسررفعت مظہر 3 جون کو صدارتی آرڈیننس کے تحت قائم کیے گئے تحقیقاتی کمیشن کی کارروائی مکمل ہوگئی۔ کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان محترم ناصرالملک نے وکلاء کاشکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ وہ اب چھٹیاںمنائیں اورکمیشن کو اپناکام کرنے دیں ۔یہ کمیشن تین بنیادی سوالوںکی تحقیقات کرنے اورکسی نتیجے پرپہنچنے کے لیے تشکیل پایا۔ 21 میںسے 19 سیاسی جماعتوںنے کمیشن سے رجوع کیالیکن سوائے تحریکِ انصاف کے کسی سیاسی جماعت نے سماعت میںحصہ نہیںلیا البتہ 39 دنوںکی کارروائی میںکپتان صاحب تقریباََہر کارروائی میںشریک ہوئے۔ کمیشن کی ایک کارروائی میںتو وہ محترمہ ریحام خاںکو بھی اپنے ساتھ لے گئے جس میںتھوڑی بَدمزگی اِس طرح پیداہوئی کہ جونہی خاںصاحب تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پہنچے تووہاں استقبال کے لیے آئی ہوئی خواتین نے خاںصاحب کے ساتھ ”سلفی”بنانی چاہی جس پرریحام خاںنے اُنہیںجھڑکتے ہوئے کہاکہ وہ اب کپتان صاحب کی ”بلاشرکتِ غیرے”مالک ہیںاِس لیے اب ایسانہیں چلے گا۔
تحقیقاتی کمیشن کی ہرسماعت کے بعد نوازلیگ اورتحریکِ انصاف ،دونوںکی جانب سے ”کھڑاک” ہوتارہا۔ ایک طرف عمران خاںاور اُن کی ٹیم جبکہ دوسری طرف دانیال عزیز ،طلال چودھری اورانوشہ رحمٰن۔ عمران خاںتحقیقاتی کمیشن سے باہرنکلتے ہی نعرہ زَن ہوتے کہ ”آج تومنظم دھاندلی ثابت ہی ہوگئی”جبکہ دوسری طرف سے آوازآتی ”ہم نے منظم دھاندلی کے الزام کو”پھڑکا” کے رکھ دیا۔ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان محترم ناصرالملک باربار تنبیہ کرتے رہے کہ ہرروز باہرلگنے والا تماشا بندکیا جائے لیکن تحریکِ انصاف نے اِس پرکان دھرے نہ نوازلیگ نے اور ”تماشا” جاری رہا۔39 دِن جاری رہنے والے اِس تماشے کا اختتام ہوا ، اب فیصلے کاانتظار ہے ۔نوازلیگ کہتی ہے کہ فیصلہ اُس کے حق میںآئے گاجبکہ تحریکِ انصاف کے محترم عمران خاںسمیت تمام رہنماء کہتے ہیںکہ اُنہوں نے ”منظم دھاندلی” کے مکمل ثبوت فراہم کردیئے ۔سونامیے کہتے ہیںکہ اُنہوںنے ایک لاکھ چھبیس ہزارکاغذات پر مشتمل دھاندلی کے ثبوت تحقیقاتی کمیشن میںجمع کروائے لیکن نوازلیگ ”ایویںخواہ مخوارَولا” ڈال رہی ہے کہ یہ سارے تو ”رَدی” کاغذ تھے جن کا 2013ء کے الیکشن سے کوئی تعلق نہ واسطہ۔ یہ کاغذات اب کارروائی کاحصہ ہیںاور تحقیقاتی کمیشن انہی کاغذات میںسے اُس ”گیدڑسنگھی ” کو تلاش کرے گاجو کپتان صاحب کواقتدار کے اونچے ایوانوںتک پہنچاسکے
اوراُن کے ادھورے خواب پورے ہوسکیں۔ ہمارے پاس اندرکی خبریں دینے والی کوئی ”چڑیا” تونہیں ، اِس کے باوجودبھی یہ یقین کہ انتخابات تو2018ء ہی میںہوں گے جن میں”نئے پاکستان”کی بنیادبھی رکھ دی جائے گی ۔اگر 2015ء میںالیکشن کروانے ہیں تواُس کاایک ہی طریقہ ہے کہ میاںنواز شریف صاحب وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیںاور ہمارے کپتان صاحب پورے پاکستان میںتین چوتھائی اکثریت سے کامیاب ہوکر وزارتِ عظمیٰ کا تاج اپنے سرپر سجالیں لیکن محترم بھائی عطاء الحق قاسمی کے خیال میںایسا ہوناممکن نہیں۔ وہ کہتے ہیں ”خاںصاحب کئی ماہ تک دھرنادیئے بیٹھے رہے اوربچوںکی طرح ٹانگیںپسار کرمچلتے رہے اورضد کرتے رہے کہ میںنے پاکستان کاوزیرِ اعظم بنناہے مگرنواز شریف بھی اتنے سنگدل نکلے کہ اُنہوںنے اِس ”بچے”کی ایک معصوم سی ضد پوری کرنے کے لیے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دیناگوارا نہ کیا”۔سونامیے کہتے ہیںکہ اُنہیںکسی کی بھیک نہیںچاہیے ، وہ جوکچھ بھی کریںگے اپنی ”سونامی”کے زورپر ہی کریںگے خواہ اِس کے لیے اُنہیںدوسرا جنم ہی کیوںنہ لیناپڑے۔ ویسے یہ نوازلیگ کے لیے لمحۂ فکریہ ہوناچاہیے کہ جیالے اورجیالیاں اب پیپلزپارٹی سے مایوس ہوکر” سونامیے اورسونامیاں” بنتے جارہے ہیںاور اوکاڑہ میںتو سوائے منظوروٹو کے سارے جیالے تحریکِ انصاف میںشامل ہوگئے ۔جیالوںکو صرف ”ڈھوم دھڑکے” والی جماعتیںہی راس آتی ہیںاسی لیے اُنہوںنے تحریکِ انصاف کاانتخاب کیا۔ اگرنوازلیگ کے جلسے جلوس”ٹھنڈے ٹھار” نہ ہواکرتے توجیالے اِس طرف بھی رجوع کرسکتے تھے۔ ایک اوربات کہ تحریکِ انصاف کاسب سے زیادہ فائدہ ”لوٹوں” کوہوا ہے ۔پہلے صرف نوازلیگ اورپیپلزپارٹی ، صرف دوجماعتیںہوا کرتی تھیںاور لوٹے ”پھُدک” کرکبھی اِدھراور کبھی اُدھرلیکن اب اُنہیںانتخاب کرنے میں آسانی اورمیدان وسیع ۔ اب جیالے اورسونامیے مِل کروہ دھوم دھڑکاکریں گے کہ نوازلیگ کو لگ پتہ جائے گا۔
Maulana Tahir Qadri
سونامیے کہتے ہیں کہ انہیں کچھ کچھ شک ہونے لگا ہے کہ تحقیقاتی کمیشن میں فیصلہ ان کے خلاف بھی آسکتا ہے اِس لیے انہوں نے حفظ ماتقدم کے طور پر مولاناطاہر القادری کو بھی پاکستان بلالیا ہے تاکہ بوقتِ ضرورت اُن کے ”مریدین”کو بھی استعمال میںلایا جاسکے ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیںکہ لال حویلی والے صاحب توپچھلے سال متواترکہتے رہے کہ ”قربانی سے پہلے قربانی ہوگی”لیکن ہوا ”کَکھ” بھی نہیں۔ وجہ شایدیہ تھی کہ اُنہیںایوانِ وزیرِاعظم تک پہنچنے کی جلدی ہی بہت تھی، اسی لیے اُنہوںنے ”شارٹ کَٹ” استعمال کیالیکن حسبِ وعدہ ”امپائر” کی انگلی ہی کھڑی نہ ہوسکی اِس لیے وہ ناکام ہوگئے لیکن اب اِس عیدِقرباں سے پہلے سونامیوںکا قربانی کا ”پَکا”پروگرام ہے اِسی لیے کپتان صاحب 2015ء کوالیکشن کاسال قرار دیتے رہتے ہیں۔ محترم عمران خاںکے 2015ء کوالیکشن کاسال قراردینے کی تکرارسے گھبراکر ہمارے سپیکرقومی اسمبلی محترم ایازصادق نے سوچا کہ عمران خاںکے تواترسے جھوٹ بولنے کوبنیاد بناکر اُن پر آرٹیکل 62/63 کااطلاق کردیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔یہ آرٹیکلز ضیاء الحق مرحوم نے آئین کاحصہ بنائے مگراُن کے دَورسے لے کرآج تک اِن پرعمل درآمد ہو سکانہ آئندہ ہونے کی توقع کیونکہ اگریہ آرٹیکلز اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ لاگوہو گئے توپھرہماری اسمبلیوںمیں ”ٹاواںٹاواں” بندہ ہی باقی بچے گا ۔یہ بجاکہ خاںصاحب نے جلسے ،جلوسوںاور کنٹینرپر کھڑے ہوکر متعددبار کہاکہ سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری ، سابق جسٹس سپریم کورٹ خلیل رمدے، ایم آئی کے ایک بریگیڈئیر ،سابق نگران وزیرِاعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی اور جنگ ،جیوگروپ الیکشن 2013ء کی دھاندلی میںملوث تھے۔
نجم سیٹھی کے 35 پنکچرزکی گونج توہواؤںکے دوش پرسوار ہوکر بیرونی ممالک تک بھی جاپہنچی۔ خاںصاحب نے یہ بھی کہاکہ جعلی بیلٹ پیپراُردوبازار لاہورسے چھپوائے گئے لیکن تحقیقاتی کمیشن میں اِن میںسے کچھ بھی پیش نہیںکیاگیا۔ تحریکِ انصاف کے رہنماء نعیم الحق کہتے ہیںکہ اُن کے وکیل حفیظ پیرزادہ صاحب نے کہاتھا کہ ایسے الزامات جنہیںثابت نہ کیاجا سکے ،تحقیقاتی کمیشن میں پیش نہیںکرنے چاہییں، اِس لیے تحقیقاتی کمیشن میں اِن لوگوںکے نام پیش نہیںکیے گئے جبکہ محترم عمران خاںنے حامدمیر کو35 پنکچروںکے بارے میںسوال کاجواب دیتے ہوئے کہا”یہ توایک سیاسی بیان تھا”۔ہم سمجھتے ہیںکہ عمران خاںصاحب اب ”پَکے” سیاستدان ہوگئے ہیںکیونکہ پاکستان میںسیاست جھوٹ کادوسرا نام ہے اورخاںصاحب تواب جھوٹ اِس تواترسے بولتے ہیں کہ سچ کاگماں ہونے لگے ۔اگراِن ”سیاسی جھوٹوں”کو بنیادبنا کرایاز صادق صاحب ہمارے کپتان پہ آرٹیکل 62/63 لاگوکرنا چاہتے ہیںتو یہ اُن کی خام خیالی ہے ۔ وہ اِن آرٹیکلزکو نہ ہی چھیڑیں توبہتر ہے کیونکہ ہمارے پاس ”حاضرسٹاک ”میںفی الحال ایسے ہی سیاستدان ہیںجوسیاست اورجھوٹ کو لازم وملزوم سمجھتے ہیں۔