تحریر: سید توقیر زیدی پانامہ پیپرز کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنے گا، ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن قائم ہوگا یا قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی تجویز کے مطابق پارلیمانی کمیشن بنایا جائے گا۔۔؟ ان سوالات کے جواب میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کردار اہمیت اختیار کرگیا ہے کیونکہ سپریم کورٹ بار یہ چاہتی ہے کہ کمیشن کیلئے جو بھی ضابطہ کار طے کیا جائے اسے حتمی شکل وہی دے۔ سرکاری وفد نے وزیر قانون زاہد حامد کی قیادت میں سپریم کورٹ بار کے صدر سید علی ظفر سے جو ملاقات کی اس میں اسی نکتے پر بحث ہوتی رہی کہ اگر ایسا ضابطہ کار (ٹرمز آف ریفرنس) طے نہیں ہوتا جس پر کام کرکے سچ سامنے آسکے تو ایسے کمیشن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور یہ محض تضیع اوقات ہوگا، اس لیے سپریم کورٹ بار کی کوشش ہے کہ ٹرمز آف ریفرنس وہ بنائے۔
وزیر قانون زاہد حامد نے دوران ملاقات سید علی ظفر سے یہ بھی پوچھا کہ ان کے ذہن میں جو ٹرمز آف ریفرنس ہیں کیا وہی حتمی ہوں گی یا ان میں کوئی ردوبدل بھی ہوسکے گا تو سید علی ظفر کا جواب تھا کہ مشاورت کے ساتھ ردوبدل بھی ہوسکے گا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس سلسلے میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرنے کا منصوبہ بھی رکھتی ہے جس کے بعد ٹرمز آف ریفرنس کو حتمی شکل دی جائے گی۔
جہاں تک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا تعلق ہے عمران خان کہہ چکے ہیں کہ انہیں صرف وہی کمیشن قبول ہوگا جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم ہوگا۔ ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کا اعلان وزیراعظم نواز شریف نے قوم کے نام اپنے نشری خطاب میں کیا تھا، پھر اس کے بعد وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ حکومت نے کئی ججوں سے کمیشن کی سربراہی کیلئے رابطہ کیا ہے لیکن وہ اس کام کیلئے تیار نہیں ہوئے، وجہ غالباً یہ ہے کہ ان جج صاحبان کے ذہنوں میں یہ ہے کہ وہ جتنی بھی عرق ریزی کرلیں اور محنت کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو جس کسی کو یہ نتیجہ پسند نہیں آئے گا وہ کمیشن کے خلاف بیان بازی شروع کردے گا اور ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی۔
Nawaz Sharif
خدشات جو بھی ہوں اب تک کسی ریٹائرڈ جج کے نام پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ اب اگر سپریم کورٹ بار اپنی ٹرمز آف ریفرنس بناکر ان پر حکومت اور اپوزیشن کو راضی کرلیتی ہے تو پھر یہ ہوسکتا ہے کہ ان کو قانونی شکل دینے کیلئے باقاعدہ آرڈیننس جاری کردیا جائے جیسے کہ 2013ء کے الیکشن میں منظم دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بناتے وقت ٹرمز آف ریفرنس طے کرکے انہیں قانونی تحفظ دیا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمز آف ریفرنس بننے تک اور ان کے حتمی شکل اختیار کرنے تک کچھ دن لگ جائیں گے۔ اس لئے ابھی کمیشن کی باقاعدہ تشکیل کا مرحلہ نہیں آیا۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی نے بھی سرکاری کمیشن کو مسترد کردیا ہے اور چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی سربراہی میں پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ اگرچہ یہ تجویز پہلے بھی سامنے آچکی ہے تاہم اس سلسلے میں سینیٹر رضا ربانی (چیئرمین) کا نام پہلی مرتبہ آیا ہے، جن کا اپنا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے، خورشید شاہ اس مجوزہ پارلیمانی کمیشن میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی برابر نمائندگی کے خواہاں ہیں تاہم اگر رضا ربانی کو چیئرمین مان لیا جاتا ہے تو یہ حکومت کی جانب سے بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ ہوگا تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سپریم کورٹ بار ٹرمز آف ریفرنس پر جو اصرار کر رہی ہے پارلیمانی کمیشن کی صورت میں بھی اس کا اصرار باقی رہے گا یا نہیں؟ اب سوال یہ ہے کہ کون سا کمیشن بنے گا، تین قسم کے کمشنوں کی تجویزیں سامنے آچکی ہیں۔
ایک چوتھی تجویز چودھری نثار علی خان نے بھی دی تھی کہ ایف آئی اے کے کسی بھی افسر سے تحقیق کرالی جائے جس کے جواب میں عمران خان نے شعیب سڈل کا نام تجویز کردیا جو کبھی ایف آئی اے میں نہیں رہے۔ ادھر لندن کی سرگرمیوں کا بھی کچھ ذکر ہو جائے تو مناسب رہے گا۔ عمران خان اپنی ٹیم کے ساتھ لندن میں ہیں، ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ فرانزک کے ماہرین سے ملاقاتیں بھی کریں گے لیکن مخالفین کا الزام ہے کہ ان کا بنیادی مقصد جمائما خان کے بھائی کے حق میں مہم چلانا ہے جو لندن کے میئر کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔
Chaudhry Nisar Ali Khan
ان کے مقابلے میں ایک پاکستانی نڑاد صادق خان ہیں جن کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ جیت بھی سکتے ہیں۔ یہ کچھ ایسی ہی مہم ہے جو دو برس قبل چودھری سرور چلانے کیلئے گئے تھے جب وہ پنجاب کے گورنر تھے اور سکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کے سوال پر ایک اہم ریفرنڈم ہو رہا تھا۔ سکاٹ لینڈ میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد رہتی ہے جن کو برطانیہ کے حق میں ووٹ دینے پر رضامند کرنے کا فرض چودھری سرور کو سونپا گیا جو اگرچہ گورنر بننے کیلئے برطانوی شہریت کو خیرباد کہہ چکے تھے تاہم وہ چھٹی لے کر برطانیہ گئے اور علیحدگی کے خلاف ووٹ ڈالنے کی مہم چلائی جو کامیاب بھی رہی تاہم اب پھر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ سکاٹ لینڈ کے مسئلے پر دوبارہ ریفرنڈم کرایا جائے، دیکھیں اس کی نوبت کب آتی ہے۔
برطانوی وزیراعظم بھی پاناما پیپرز کی وجہ سے گزشتہ ہفتوں میں خاصے دباؤ میں رہے کیونکہ ان کے والد کی کمپنی کا نام ان پیپرز میں آیا تھا جس کی وجہ سے ان کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔ انہوں نے اس سلسلے میں اپنی صفائی تو پیش کی اور اپنے ٹیکس کے معاملات کی تفصیلات بھی دیں لیکن کسی تحقیقاتی کمیشن وغیرہ کا اعلان نہیں کیا، نہ اپوزیشن نے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا، البتہ اب وہ اس دباؤ سے نکلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
ڈیوڈ کیمرون اور وزیراعظم نوازشریف کے معاملے میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں کے اپنے نام ان پیپرز میں نہیں آئے۔ ایک کے والد کا نام آیا تو دوسرے کے بیٹوں کی کمپنیوں کے نام آئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے تو جھٹ سے تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کردیا جو ابھی تک بن نہیں پایا اور وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ کب بنے گا؟ لیکن ڈیوڈ کیمرون نے اپنے ٹیکس معاملات قوم کے سامنے پیش کردیئے۔ نوازشریف بھی ان کی پیروی کرسکتے ہیں، پھر شاید کسی کمیشن کی ضرورت بھی نہ پڑے۔