تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میرے سامنے آب زم زم سے دُھلا ‘سر پر دودھ سے زیا دہ سفید بال ‘چہرے پر شفیق تبسم کی کرا مت سجائے 70 سالہ شخص بیٹھا تھا چند سالوں سے یہ رمضان المبارک سے چند دن پہلے یا رمضان کے پہلے عشرے میںمیرے پا س آتا ۔ہر سال یہ لاکھوں روپے لے کر آتا اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر کے واپس امریکہ چلا جاتا ‘ چند سال پہلے کسی جاننے والے نے اِس کو میرے پاس بھیجا’اِس کے آنے کا مقصد معاشرے کے مجبور بے بس لا چار اور پسے ہو ئے لوگوں کی مدد کرنا تھا لا ہور سے دور دراز کے دیہات میں ایسے لو گ جن تک مخیر حضرات کی رسائی نہ تھی ہر بار و ہ کسی نئے گا ئوں کا انتخاب کر تا وہاں خود جاکر ضرورت مندوں میں پیسے تقسیم کر کے واپس چلا جاتا میرے پاس آنے کا مقصد یہ تھا کہ میں ضرورت مندوں کی تلاش میں اِس کی مدد کروں اِس کی سخاوت کا انداز بہت روح پرور تھا ہم ایسے ضرورت مندوں کو ڈھونڈتے جن کی زندگیوں میں چند ہزار کی مدد سے ہی تبدیلی آجا تی ‘روپے تقسیم کر نے میں ایک بات کا خیال رکھا جاتا کہ زیا دہ سے زیادہ ضرورت مندوں کی زندگی میں خو شگوار تبدیلی آ سکے۔
میں کسی نئے گائوں میں اپنے کسی جا ننے والے کی ڈیو ٹی لگا تا وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ضرورت مندوں کو تلا ش کرتا اُن کی لسٹیں بنا تا اور پھر ہم جا کر اُن ضرورت مندوں میںدولت تقسیم کر آتے سخا وت کا نور پھیلانے میں ایک با ت کا خاص خیال رکھا جاتا کہ کسی کی بھی عزت نفس پامال نہ ہو یہ سخاوت انتہائی راز داری اور خفیہ طریقے سے کی جا تی اِس کے لیے یہ ٹینٹ کر سیاں اور اسپیکر نہ لگا تے نہ ہی لوگوں کا تما شہ لگا یا جا تا نہ ہی الیکشن حربے کے طو رپر استعمال کیا جا تا دن یا رات کے اندھیرے میںمطلوبہ فرد تک جا کر اُس کی مدد اِس خا موشی سے کی جا تی کہ کسی کو بھی اِس کا پتہ نہ چلتا ۔ جس گائوں میںہم اپنی آخرت سنوارنے کے لیے خدمت خلق کی شمع جلا نے گئے دوبا رہ کبھی مڑ کر بھی اُس کی طرف نہ گئے نہ ہی بدلے میں کچھ ما نگا ایک با ر الیکشن میں لوگوں نے باقاعدہ پو چھا کہ ہمارے مشکل وقت پرآپ لوگ ہما رے کام آتے ہو آپ حکم کر یں ہم ووٹ کس پا رٹی کو دیں تو اُن کو صاف صاف بتا دیا گیا کہ یہ آپ لوگوں کا حق ہے یہ آپ جس کو مرضی ووٹ دیں سخا وت کر کے ہم نے آپ لوگوں کو خرید نہیں لیا۔
ہم نے تو ڈاکیے کا کام کیا ہے ہما رے پاس پیسے خداکے کرم سے آئے ہم خو ش قسمت ہیں کہ اس رزق کوضروت مندوں تک پہنچانے کا سبب بن گئے اگر خالق کا ئنات ہم پر رزق کے دروازے یا اسباب بند کر دے تو ہم تو خود دامن پھیلائے کسی کی ضرو رت کے محتا ج ہو جائیں یہ خدا کا نو رہم تک پہنچا ہم نے آگے پہنچا دیا لو گ اکثر مُجھ فقیر سے ایک سوال بار بار کر تے ہیں کہ ہم خدا تک کیسے پہنچیں وہ کو نسی عبا دت ریا ضت چلا ‘وظیفہ یا اسم اعظم ہے جس کو کر نے سے خدا کا قرب حاصل ہو تا ہے اللہ کا نیک بند ہ بنا جا سکتا ہے بار گاہِ الٰہی میںمقبول ہو اجا سکتا ہے تو میں یہی کہتا ہوں کہ خدا تک پہنچنے کا سب سے آسان راستہ اُس کی مخلوق کی بے لو ث خد مت اور مدد ہے خد مت خلق کا یہ دائرہ انسانوں تک ہی نہیں پھیلا ہوا بلکہ اِس میں خدا کی ہر تخلیق جانور درخت بھی آتے ہیں دوسروں کی مدد کسی بھی طریقے سے کی جا ئے با رگاہِ الہی میں فوری قبو ل ہو تی ہے خدمت خلق صرف روپے پیسے سے ہی ممکن نہیں ہے کسی کی با ت سن کر اُسے حو صلہ امید دینے سے بھی ممکن ہے کسی کے آنسو پو نچھنے سے بھی ممکن ہے کسی کو اچھا مشورہ دینے سے بھی ہو تی ہے کسی کو راستہ دکھانے سے کسی کو مسکرا کر دیکھنے سے بھی کسی دوسرے کی زندگی میںکسی بھی قسم کی آسانی فراہم کر نے سے خدمت خلق کا فریضہ ادا ہو جا تا ہے پا کستان کر ہ ارض کے اُن ملکوںمیںشامل ہے جہاں خدمت خلق خدا ترسی کا جذبہ بہت زیا دہ ہے تقریبا سارے پاکستانی اپنی بساط کے مطا بق دوسروں کی مدد کر نے کی کو شش کر تے ہیں پا کستان کا شما ر خیرات کر نے والے پا نچ بڑے ملکوں میں ہو تا ہے اِس وقت دنیا میں 140ملکوں میں خیرات کا نظا م کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
اہل پاکستان فی کس آمد نی کے لحاظ سے دنیا میں خیرات کر نے والے لوگوں میںپانچویں نمبر پر آتے ہیں 1990میںپاکستان میں سالانہ بنیا دوں پر 70ارب روپے خر چ کئے جا تے تھے جو 2006تک بڑھ کر 150ارب روپے ہو گئے آج تک یہ اور بھی بڑھ گئے ہو نگے پاکستانیوں کا یہ جذبہ خو شگوار حیرت میںمبتلا کر دیتا ہے بد قسمتی سے ہمیں کئی عشروں سے اچھے حکمران نصیب نہیں ہو ئے قو می دولت اور وسائل کو پچھلے کئی سالوں سے بری طرح لو ٹا گیا ہے لیکن اِس لو ٹ مار کے با وجود معا شرے میںآج بھی زندگی اخلا قیا ت خدمت خلق کے جذبات ہر گزرتے دن کے ساتھ نکھرتے چلے جا رہے ہیں حکمرانوں کی ظالما نہ لو ٹ مار کے با وجود ملک میںخدمت خلق خدا ترسی اخو ت بھا ئی چارے کا نظام نظر آتا ہے ہما رے ملک میں آج بھی آٹھ کروڑ سے زیا دہ لو گ خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر موجود ہیں یہ کروڑوں لوگ کس طرح زندہ ہیں یہ ما ہرین کے لیے حیر ت کا سبب ہیں پاکستان میں ہزاروں سکو ل مدرسے ہسپتال خیراتی ادارے مسا جد یتیم خا نے ایسے ہیں جو اپنی اہل ثروت حضرات کے تعاون سے سانس لے رہے ہیں۔
وطن عظیم میں موجود عوا م کش نظام کے با وجود خدا نے ایسے مخیر حضرات ہر دور میں پیدا کئے ہیں جن کے وسیلے سے لوگوں کی سانسوں کے رشتے جا ری ہیں جو لوگوں کی امید کے دھا گے قائم رکھے ہو ئے ہیں جو غریبوں کو گلو کو ز دینے میں اپنا کر دار ادا کر تے ہیں ہم معاشرے کی بے حسی کا رونا روتے ہیں لیکن اِس معاشرے میں روشن لو گ ‘ ہیرے جواہرات جیسے یہ لوگ نظر نہیں آتے بانجھ معاشرے کی زندگی کا ضامن بنے ہو ئے ہیں ہما رے ملک میں بے شما ر ایسے دولت مند ہیں جنہوں نے اپنی کما ئی کا ایک مخصوص حصہ ضرورت مندوں کی مدد کے لیے مختص کر رکھا ہے جو اپنی دولت کو انہی ضرورت مندوں کی مر ہون منت سمجھتے ہیں جو اپنے ورکروں کو اپنا خا ندان سمجھتے ہیں جن کو اپنے ورکروں کی ضرو رتوں کا شدت سے احساس ہے جو خا موشی سے اپنے ملاز موں کی ضرورتوں کو پور ا کر تے ہیں جو دولت کو عطیہ خدا وندی سمجھ کر لوگوں میں تقسیم کر تے ہیں جو دولت کا خاندانی میراث نہیں بلکہ خدا کا کرم سمجھتے ہیں جو سارا سال ضرورت مندوں کی تلاش میںرہتے ہیں جولوگوں کی عزت نفس مجروح نہیں کر تے بلکہ کسی کی مدد کر کے خدا کا شکر ادا کر تے ہیں کہ خدا نے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ ضرورت مندوں کی مدد کر سکیں انہی لوگوں کیوجہ سے اِس ملک میں شاید ہی کو ئی ایسا انسان ہو جو بھو کا سوتا ہو اور شاید ہی کو ئی مریض ہو جس کو دوائی نہ ملتی ہو سینکڑوں مدرسوں سکولوں سے سٹوڈنٹس علم کے نور سے اپنے سینوں کو روشن کر تے ہیں ایسے بے شما ر ادارے ہیں جو یتیم بے آسرا بچیوں کے سروں کو ڈھانپنے میں فرشتوں جیسے یہ لو گ رات کے اندھیر وں میں خا موشی سے آگے بڑھتے ہیں اور خا موشی سے ضرورت مندوں کی مدد اِس طرح کر تے ہیں کہ دوسرے ہا تھ کو پتہ تک نہیں چلتا اِس ملک میں شاید ہی کوئی ایسا ضرورت مند ہو جس تک خالق کا ئنات کا غیبی ہا تھ مدد کر ن ہ پہنچا ہو اِس غیبی ہا تھ کے کرشمے سے ہما را با نجھ معاشرہ سانسیں لے رہا ہے۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956