تحریر : انجینئر افتخار چودھری دنیا کے نقشے پر ایک ایسا ملک معرض وجود میں آنے والا تھا جس کی بنیاد ایک خاص نظریے پر تھے۔اس تحریک کے سرخیل نے اپیل کی کہ مجھے اس نیک مقصد کے لئے پیسے چاہئیں۔جہاں اہل دولت نے تجوریا کھولیں وہیں ننھے منے بچوں نے بھی اپنی خرچی سے پیسے بچا کر فنڈ میں جمع کرائے منی آرڈر،ڈاک کے ٹکٹ کی رسیدیں غرض اس وقت کے ذرائع استعمال کئے گئے۔تحریک کے قائد کو ایک خط ملتا ہے جس میں سخت الفاظ میں مطالبہ کیا گیا کہ جناب قائد آپ کی اپیل پر ہم مسلم طلباء جو امریکن سیشن اسکول میں پڑھتے ہیں ہم نے مبلغ ٤١ روپے آپ کو ارسال کئے مگر یہ کیا بات ہوئی کہ ہمیں ابھی تک ان کی رسید نہیں ملی۔استفسار کا لہجہ ملاحظہ کیجئے۔قاریئین یہ خط ایک نوجوان طالب علم جس کا نام سید وحید علی تھا یہ تحریر اس نے بانی ء تحریک پاکستان حضرت قائد اعظم کو احمد نگر سے ١٩٤٢ میں لکھی۔قائد نے اس پر عمل کرتے ہوئے عملے کی باز پرس کی اور رسید انہیں بھجوا دی۔
میرے پاس جناب شاہد اعوان کی نشر کردہ کردہ کتاب جو انہوں نے برادر آصف محمود کے پروگرام میں عنائت کی یہ خط اس کتاب کے صفحہ ٥٤ پر چھپا ہوا ہے۔کتاب کا نام قائد کے نام بچوں کے خطوط ہے ڈاکٹر ندیم ملک نے اس کو جمع کیا ہے۔ہم اس پروگرام جس میں جنرل امجد،احمد رضا قصوری راقم اور میزبان آصف محمود بحث کرتے رہے کہ کیا اس وقت پاکستان میں کسی کو پوچھا جا سکتا ہے؟کہ بتائیے رسید کہاں ہے؟اس رسید کے رولے پڑے ہوئے ہیں جس کو نہ دینے کی رٹ لگاتے لگاتے ہم نے اپنے وزیر اعظم کو دل کے عارضے میں مبتلا کر دیا۔
قوم کا کیا قصور ہےْ قوم نے ١٩٤٢ میں ٤١ روپے کا حساب مانگا تھا اور یہی قوم اپنے وزیر اعظم سے حساب مانگ رہی ہے۔سچ پوچھئے پاکستانی قوم کے بچے بچے کا حق بنتا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کیا ہر اس صاحب اقتتدار،چاہے وہ وردی والا ہو یا بغیر وردی کے ،اپوزیشن میں ہو یا حکومت میں ان سے ضرور پوچھے کہ کیا ملک خدادا پاکستان کے بانی سے بڑھ کر ہو آپ۔قوم میں ابھی سید وحید زندہ ہیں۔
Pakistani Nation
سب سے پوچھا جائے۔ہر اس شخص سے جو اقتدار کو چھو کر بھی گزرا ہوکیا پاکستان میں وحید رہتے ہیں؟اس کا فیصلہ اب ہو کر رہے گا۔رسید مانگنا پاکستانی قوم کا حق ہے۔اس کی رقوم جو باہر کے ملکوں میں گئی ہیں اس کا حساب چاہئے۔اگر ٧٦ میں میاں نواز شریف کے والد کنگلے تھے تو دبئی میں مل کس پیسے سے لگی۔اگر دبئی سے جدہ مل لگانے کے پیسے گئے تو ان کی رسید بھی دکھائی جائے۔جدہ کی مل کا تو مجھے بھی پتہ ہے وہ خسارے میں تھی اور چند ہی سالوں میں وہ مطبقانی گروپ کو بیچ دی گئی۔اس میں مئے فیئر کے فلیٹس ہیں،یہ سب کچھ کیا ہے؟قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر پی لیا گیا کوئی بولے بھی ناں۔
پانامہ لیکس کوئی تحریک انصاف کی کوشش نہیں ہے۔اس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ہمارے ملک کے حکمرانوں کا نام لیا گیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر ان کی اولاد اس دھندے میں شامل ہے تو صرف یہ بتا دیجئے تیرہ سال کا بچہ کاروباری کیسے بنا۔
قارئین اس ملک کو قائد اعظم نے بنایا لیکن اس ملک کے قائد اعظم کا محاسبہ سید وحید نے کیا۔اگر عمران خان اس مشن کو لے کر آگے بڑھتا ہے تو وہ نیا کام نہیں کر رہا اس نے اپنے آپ کو احمد نگر کا سید وحید ثابت کیا ہے۔شدت محبت میں میرے مسلم لیگی دوست میاں نواز شریف کو قائد اعظم ثانی بھی کہتے ہیں اگر اسے درست بھی مان لیا جائے تو ثانی سید وحید ثانی کا جواب دے ورنہ سڑک ہو گی اور تحریک انصاف۔