تحریر: رشیداحمد نعیم میں اپنا شمار علامہ اقبال کے مداحوں میںکرتا ہوں اگرسچ پوچھیں تو میںاردو زبان سے اس وقت روشناس ہوا جب بچپن میں کتب میں کلام اقبال پڑھایا جاتا تھا۔اقبال کے الفاظ مجھے اپنی گرفت میں لے لیتے تھے۔اس میں ایک ایسا مدہوش کردینے والا جادو ہے کہ آج تک اس میں گرفتار ہوں۔ان کا ایک ایک لفظ اپنے اندر ایسی تڑپ رکھتا ہے جسے ادب کے دلداہ حضرات ہی محسوس کر سکتے ہیں اقبال ایک آفاقی شاعر ہیں ان کی شاعری سے پوری دنیا آج استفادہ کر رہی ہے ۔اقبال کی شاعری نسل ِنو کی ضرورت ہے اور اس کی فصیل ِ ذہن پر دستک ہے ۔جو احساس کے تاروں کوہلاتی اور رگوں میں خون کی گردش کو تیز کرتی ہے۔
جذبات و خیالات کی دُنیا میں تلاطم پیدا کرتی اور لہجے میں بادلوں کی گرج اور بجلیوں کی سی تڑپ پیدا کرتی ہے،بازوئوں میں ہمالہ کو دُھنکنے کی سکت اورقدموں میں دریائے حوادث کو روند ڈالنے کی طاقت پیدا کرتی ہے۔اگر آج کا نوجوان اقبال کی شاعری میں پوشیدہ اس پیغام کو پڑھ لے جو اقبال شاعری کے ذریعے نوجوانوں کو دینا چاہتا ہے تو پورے اعتماد سے کہاجا سکتا ہے کہ اس کے دل کی دنیا بدل جائے گی، سوچ کے دھارے اور فکر کے زاویے بدل جائیں گے۔ روز و شب کے مشاغل اور ماہ و سال کی سر گرمیاں بدل جائیں گی۔
Poetry
یہاں تک کہ ایک ایسے نوجوان کی بازیافت ہو گی جوبیان و اظہار کے کسی محاذ پر ناکام نہیں ہو گا۔ جو دل کی بات پورے اعتماد کے ساتھ زبان پر لا سکے گا۔جو پُرعزم بھی ہو گا اور پُروقار بھی۔باہمت بھی ہوگااور باعتماد بھی۔جس کے ہاتھوں قوم کا حال روشن اور مستقبل تابناک ہو گا جو اپنی قوم کا فخر اوراپنے ملک کا وقار ہو گا کیونکہ ترجمان ِ حقیقت،شاعرِمشرق حضرت علامہ محمداقبال نے اپنی شاعری کو قوم کی اصلاح کا ذریعہ بنایا۔آپ ہمارے قومی شاعر ہیں ۔آپ کے دل میںمسلمانوں کی بے پناہ محبت تھی۔مسلمانوں کی اخلاقی پستی اور سیاسی و معاشرتی زبوں حالی آپ کے لیے بہت دکھ کا باعث تھی اور آپ اس بات پر بہت پریشان رہتے تھے ۔
بہت کڑھتے تھے اس صورت ِ حال پر۔اس لیے آپ نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کا فیصلہ کیا۔نوجوانوں میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے ولو لہ ا نگیز نظمیں لکھیں۔مسلمانوں کو ان کا شاندار ماضی یاددلایا۔اور ان کو اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین کی آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو اتحاد،اخوت،ہمدردیِ،محبت،عمل اور محنت کادرس دیا۔آپ نے مسلمانوں کوذلت و رسوائی کے عمیق گڑھوں سے نکلنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
Islam
مسلمانوں میں اسلام کی حقیقی روح پیدا کرتے ہوے ان میں آزادی کے حصول کی تڑپ ،طلب اور امنگ پیدا کی۔اقبال ایک سچے عاشق ِرسولۖ تھے۔ ان کا دل عشق ِرسولۖ سے لبریز تھا۔اقبال صرف ہمارے قومی شا عر ہی نہیںبلکہ ایک عظیم راہنما کا درجہ رکھتے ہیں۔مسلمانان ہند کی سیاسی بیداری میں ان کے خیالات و افکار کا بہت عمل دخل ہے۔نظریہ پاکستان سب سے پہلے اقبال نے ہی پیش کیا۔اسی نظریہ کو مسلم لیگ نے اپنایا اور قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں کی ایک آزاد اسلامی مملکت ، اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آئی۔9نومبر1877کو پنجاب کے خوبصورت شہر سیالکوٹ میں شیخ نوراحمد کے آنگن میں آنکھ کھولنے والے اقبال نے بی۔اے۔اور ایم۔اے کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔
انگلستان سے وکالت اور جرمنی سے پی،ایچ،ڈی کی ڈگری حاصل کی۔برطانوی حکومت نے آ پ کی علمی اور ادبی خدمات سے متاثر ہو کر آپ کو ” سر” کا خطاب دیا۔قوم نے آپ کو حکیم الامت،شاعرِمشرق اور ترجمان ِحقیقت کے خطابات سے نوازا۔آپ 21اپریل 1938کواس دارِفانی سے رخصت ہو گئے۔آپ کا مزار اقدس بادشاہی مسجد کے صدر دروازے کے باہر ہے۔آپ کی وفات سے علم و ادب اور شاعری کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا وہ آج تک پُر نہیں ہو سکا۔ رشید احمد نعیم صدر الیکٹرونک میڈیا حبیب آباد پتوکی