علامہ اقبال کی شاعری کا مرکز و محور اُ ن کا فلسفہِ خودی ہے۔ اُنہوں نے خودی کے لفظ کو ایک نئے معنی پہنائے ہیں۔ اور ان کے اپنے بقول اُنہوں نے اسے اردو کے معنوں یعنی غرور و نخوت کے بجائے شعورِ نفس اور تعین ِ ذات کے لئے استعمال کیا ہے۔ چنانچہ خودی کا حامل کوشش، جدو جہد اور عمل کا پیکر ہوتا ہے۔ جس کی خودی جتنی بلند ہوگی وہ اتنا ہی بلند تر ہوگا ۔ فرد ملت یا جماعت کا حصہ ہے۔ چنانچہ فرد اور ملت یا جماعت کے باہمی ربط کے قانون کو اقبال نے بے خودی کہا ہے۔ علامہ اقبال نے 20 جولائی 1918ء اکبر الہ آبادی کو خط میں لفظ بے خودی کے بارے میں لکھا کہ ایک اور بے خودی ہے جس کی دو قسمیں ہیں۔ (١) ایک وہ جو (Lyrical poetry) کے پڑھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ اس قسم سے ہے جو افیون و شراب کا نتیجہ ہے۔ (٢) دوسری وہ بے خودی ہے جو بعض صوفیہ اسلامیہ اور تمام ہندو جوگیوں کے نزدیک ذات انسانی کو ذات باری میں فنا کر دینے سے پیدا ہوتی ہے۔
فنا ذات باری میں ہے نہ احکام باری تعالٰی میں۔ پہلی قسم کی بے خودی تو ایک حد تک مفید بھی ہو سکتی ہے مگر دوسری قسم تمام مذہب و اخلاق کے خلاف جڑ کاٹنے والی ہے۔ میں ان دو قسموں کی بے خودی پر معترض ہوں اور بس حقیقی اسلامی بے خودی میرے نزدیک اپنے ذاتی اور شخصی میلانات رجحانات و تخیلات کو چھوڑکر اللہ تعالٰی کے احکام کا پابند ہو جانا ہے۔ اس طرح پر کہ اس پابندی کے نتائج سے انسان بلکل لا پرواہ ہو جائے اور محض رضا و تسلیم کو اپنا شعار بنائے۔ یہی اسلامی تصوف کے نزدیک فنا ہے۔ البتہ عجمی تصوف فنا کے کچھ اور معنی جانتا ہے۔ جس کا ذکر اوپر کر چکا ہوں۔ علامہ اقبال نے مثنوی ” اسرار و رموز” میں بے خودی کے عنوان کے تحت اس لفظ کے معنی کی وضاحت کر دی ہے۔ مذکورہ بالا خط لے الفاظ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ خودی جب خلوت سے باہر قدم رکھتی ہے تو وہ اپنی رضا سے اپنے اختیارات محدود کر لیتی ہے۔ اور جذبہ محبت کے تحت اپنی شخصیت اپنی ہستی کو مٹا ڈالتی ہے۔ گویا فرد جماعت کے مفادات کی خاطر اپنے مفادات سے دستبردار ہو جاتا ہے۔
جماعت میں قوت و نظم پیدا کرنے کے لیئے اپنے اختیارات اس کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس طرح باہمی لطف و محبت کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔ خودی اور بے خودی کے اس فرق کو علامہ اقبال نے ” زبورِ عجم” کے حصہ دوئم کی غزل نمبر 62 کے حسبِ ذیل شعر میں بڑی خوبی سے واضع کیا ہے ۔ جب تک انفرادی، اجتماعی خودی (یعنی جماعت یا معاشرے کی خودی) سے متصادم نہیں ہوتی تو اسے چاہیئے کہ وہ اس کی نشو و نما اور نگہبانی کرے اور اس کی قوت سے تعمیری اور تخلیقی مقاصد کی نگہبانی کرے اور ذوق آرزو سے سر شار خودی کی دنیا الگ تعمیر کرے۔
بے خودی سے اجتماعی خودی پیدا ہوتی ہے۔ اجتماعی خودی ہی کسی قوم کو موت اور زندگی بخشتی ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک اجتماعی خودی اتنی اہم ہے کہ ان خیال میں ” انا الحق” کا نعرہ قوم کے لیئے تو مناسب ہے۔ فرد کے لیئے نہیں۔ انا الحق جز مقام کبریانیست
علامہ اقبال کا خیال ہے کہ ملت ایک ایسی نگاہ ہے جو ہزاروں آنکھوں سے مل کر بنتی ہے۔ ملت کی اس یک رنگی سے اقبال کی داد وحدت افکار و کردار ہے۔ صوفیا ء کے بر عکس اقبال اس بات کے مخالف ہیں کہ انسان کو اپنی خودی کی ذات میں فنا کر دینی چاہیئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر قطرہ دریا میں جا کر موتی نہ بنا اور با لکل فنا ہو گیا تو یہ سراسر اس کا نقصان ہے۔ چنانچہ وہ قطرے کو ایسے دریا میں جانے کی تعلیم دیتے ہیں جس میں ابھرنے اور ڈوبنے سے خودی مزید نمایاں ہو جائے۔ کبھی دریا سے مثل موج ابھر کر کبھی دریا کے سینے میں اتر کر کبھی دریا کے ساحل سے گزکر مقام اپنی خودی کا فاش اتر کر
Allama Iqbal Poetry
اقبال کے فلسفہء خودی پر بحث کرتے ہوئے مولانا عبدالسلام ندوی ” اقبال کامل” میں لکھتے ہیں جس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کا دماغ غور و فکر کے مراحل طے کر رہا تھا یورپ میں فردو ملت کی بحثیں شروع ہو گئی تھیں۔ اگرچہ اس مسئلہ کے متعلق اب تک مفکرین مختلف الرائے ہیں۔ تا ہم اتنا طے ہو چکا ہے کہ فرد کو شطر بے مہار کی طرح با لکل آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا۔ لیکن جہاں فسطائیت یا اشتراکیت میں فرد کی آزادی کو با لکل نظر انداز کر دینے پر اصرار کیا جاتا ہے وہاں جمہوریت نے فردو ملت کی آزدیوں کے درمیان ایک قسم کی مفاہمت کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن ہر حال جیہ تمام اصول سیاسی، معاشی اور وطنی ہیں۔ اور دنیا میں اس وقت جو قیامت خیز ہنگامے برپا ہیں ان سب کو اسی اصول نے پیدا کیا ہے۔ اور اس بناء پر پیدا کیا ہے کہ ان کی بنیاد مادیت پر نہیں ہے۔ اس کو ڈاکٹر صاحب نے اپنے فلسفہ بے خودی کی بنیاد روحانیت پر رکھ کر ان تمام جھگڑوں کو ختم کرنا چاہا ہے۔ اور یہی وہ فرق ہے جو ان کو فلسفوں سے با لکل علیحدہ کر دیتا ہے۔
جس کے حدود قوم و نسل، رنگ و نصب یا وطنوں کی رائج الوقت اصطلاحوں سے متعین نہیں ہو پاتے بلکہ روحانی افکارو خیالات سے اس میں حد بندی ہوتی ہے۔ اس لیئے انفرادیت و اجتماعیت کی جو کشش دولت و ذخائر دولت کے محدود ہونے کی وجہ سے یورپ میں نظر آتی ہے وہ ان کے فلسفے میں موجود ہے۔ علامہ نے اپنے پیچھے بہت سی تصا نیف چھوڑی ہیں ۔ ان میں علم الاقتصاب، ایران میں فلسفہ الحیات، ملت بیضاء پر عمرانی نظر، اسرار خودی، رموز، بے خودی، نانگ درا، پیام مشرق، زبورِ عجم، جواب شکوہ، جاوید نامہ، اسلامی الہیات کی تشکیل جدید، بال جبرائیل، پس چہ بایدکرداے اقوام مشرق، ضرب کلیم، ارمغان حجاز، تاریخ ہند۔
ان کے علاوہ بھی کچھ کتابیں ، مضامین اقبال اور خطوط اقبال وغیرہ کے مختلف مجموعے سے شاع ہوچکے ہیں۔ آخری عمر میں علامہ کے لیئے ریاست بھول پال سے وظیفہ مقرر ہو گیا تھا۔ جس کا سلسلہ ان کی وفات کے بعد ان کے بچوں تک چلتا رہا۔ بہر حال اللہ تبارک و تعالٰی کے اس قول ” کُل نفسِِ ذائقةُ الموت” کے تحت اپنی باری پر اس مرد قلندر نے اس جہان فانی کو 1938ء میں الوداع کہا اور موت کے حصار میں اپنے رب کریم کے دربار میں حاضر ہو گئے (انا للہ و انا الیہ راجیعون) اللہ پاک انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں ۔ آمین