اقبال کے اشعار

Mir Afzal

Mir Afzal

میرا طریق امیری نہیں غریبی ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
اقبال نے یہ شعر اپنے بیٹے جاوید کے لیے کہا تھا مگر کون جانتا تھا کہ ہزاہ ڈویثرن جیسے دور افتادہ علاقے کے رہنے والے ایک نیک دل انسان اور آیک بیٹے کے والد گرامی جناب میر افضل اپنے بیٹے طارق میر کو اقبال کے اس شعر کے سانچے اور آئینے میں ڈھال رہے ہیں اور بچپن سے ہی آپنے بیٹے کی تربیت اس طرح کی کہ عبادت تو ہم انسانوں پر فرض ہے، مگر تکمیل انسانیت کے لیے اکیلی عبادت کافی نہیں ہے۔

عبادت کے ساتھ ساتھ خدمت خلق بھی اس کا ایک جز ہے۔۔ شائد طارق میر کے والد گرامی میر افضل نے اقبال کے اس کلام کو بھی سن رکھا تھا کہ

پیدا کیا انسان کو درد دل کے واسطے
ورنہ عبادت کے لیے کچھ کم نہ تھیں کرپیاں

جناب طارق میر صاحب کا تعارف کرنا ایسا ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا ہو ۔ مگر یہ ایک رسم تحریر ہے سو پوری کیے دیتے ہیں طارق صاحب کا تعلق پاکستان کے شہر راولپنڈی سے ہے۔ اپ کے والد گرامی کا تعلق صوبہ خیبر پختون خواہ کے ہزارہ ڈویثزن سے تھا جو فوج میں ملازم تھے طارق صاحب کی پیدائش اور تعلیم و تربیت راولپنڈی میں ہی ہوئی اپ نے 1969 میں مسلم ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ، اور پھر 1972 میں گورنمیٹ کالج اصغر مال سے ایف۔ ایے کیا زمانہ طالبعلمی میں طارق میر صاحب میدان سیاست میں بھی سرگرم رہے۔

مگر پھر بہتر مستقبل کے لیے سعودیہ عرب آ گئے ، اور ریاض میں ملازمت سے اپنی عملی زندگی کا اغاز کیامختلف ادوار میں مختلف کمپنیوں میں خدمات سر انجام دیتے رہے بعد ازاں اپنا کاروبار شروع کیا تو اللہ تعالی نے کاروبار میں خیر و برکت عطا فرم مائی اور آج اللہ کے فضل و کرم سے ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں دنیا کی کامیابی تو چند دن کی بات ہے۔

Allah

Allah

اللہ تعالی کے طرف سے ایک آزمائش ہے ، اور یہ متاع الدنیا الا غرور کے زمرئے میں آتا ہے ۔ مگر طارق صاحب پر اللہ کا احسان اور کرم یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں دنیا کے ساتھ ساتھ دین اور آخروی کامیابی کا راستہ بھی دکھا دیا ہے ۔ “راستہ ان لوگوں کا جن پر اللہ نے انعام کیا ؛ جو سیدھے راستے پر تھے اور جنہوں نے حقیقی کامیابی کی راہ اختیار کی ؛ 1984 میں طارق میر صاحب کے ایک دوست کا ٹریفک حادثے میں انتقال ہو گیا ، طارق صاحب نے اس کے جسد خاکی کو پاکستان بھجوانے کے کام کا آغاز کیا۔

اس کام کی تکمیل میں طارق صاحب کو دو ماہ کا عرصہ لگا، مختلف محکموں کے چکر لگا لگا کر وہ تھک گے بہرحال آخر کار دو ماہ کی انتھک کوششوں اور محنت سے وہ اپنے دوست کے جسد خاکی کو پاکستان بجھوانے میں کامیاب ہو ہی گے، اس کام کے لیے انہیں بہت ہی کھٹن مراحل و مشکلات سے دوچار ہونا پڑا، اور انہیں یہ احساس ہوا کہ یہاں جو غریب لوگ فوت ہو جاتے ہیں ان کا کیا ہوتا ہو گا اور ان کے ورثا پر کیا گزرتی ہو گی ،، بس یہی وہ لمحہ تھا جب انہوں کے اس کام کو رفاعی بنیادوں پر کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔آج سے 30 سال قبل اٹھائے گے ایک قدم نے آج ہزاروں میلوں کا سفر طے کر لیا ہے ، بھلائی اور خیر کا یہ سفر گزشتہ تین دھائیوں سے جاری ہے۔

آج تک چھ ہزار کے لگ بھگ افراد ان کے اس کارخیر سے مستفید ہو چکے ہیں ۔ ان کے مالی مفادات ، ذاتی زندگی ،گرتی ہوئی صحت، اور ڈھلتی ہوئی عمر بھی ان کی ہمت و عزم اور حوصلے میں کمی نہ کر سکے ۔۔ اور ان کہ یہ سفر اسء آب تاب سے جاری ہے جس سے اس سفر کا آغاز کیا تھا ۔اور اب انکے اس سفر خدمت میں انکے 7 بیٹے بیٹی انکے ساتھ شامل ہیںہماری دعا ہے۔

Mir Afzal

Mir Afzal

اللہ تعالی انہیں صحت کاملہ کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائے تانکہ اس دیار غیر میں بے گور و کفن انسانوں کی خدمت کا جو بیڑہ انہون نے اٹھایا ہے وہ جاری رہے ،،، اور مصبیت زدہ انسانوں کے لیے امید کی کرن باقی رہے ۔۔آخر میں اقبال ہی کا ایک شعر جناب طارق صاحب کی نظر کہ
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پرُدم ہے اگر توُ تو نہیں خطرہ ء افتاد

تحریر………اشتیاق احمد عباسی