اقبال کوثر جدیداردو غزل اور نظم کے نمائندہ شاعر ہیں۔ان کا تعلق اگر چہ جہلم شہر کے نواح میں موجود قصبہ کالا گوجراں سے تھا اور انہوں نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ جہلم میں ہی گزارا، مگر اردو غزل اور نظم کے سنجیدہ نقادین اُن کے نام اور کام سے واقف رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی بڑے شہر میں نہ ہونے کے سبب، ان کی شاعری اور شخصیت کو وہ پذیرائی نہ مل سکی، جس کے وہ حق دار تھے۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے، ان کے لکھے ہوئے حروف ہمیشہ تابندہ، روشن اور زندہ رہیں گے اور آنے والے وقت میں وہ اپنا وجود منوا لیں گے۔ اقبال کوثر کا تعارف احمد ندیم قاسمی صاحب سے اس زمانے میں ہوا جب احمد ندیم قاسمی صاحب روزنامہ امروز کے مدیر تھے اور ادبی صفحہ نکالا کرتے تھے۔ اقبال کوثر اُن کو اس وقت اقبال حسین سحر کے نام سے اپنا کلام بھیجتے جسے احمد ندیم قاسمی صاحب بڑے اہتمام سے شایع کرتے تھے۔ پھر جب فنون شایع ہونا شروع ہوا تو اقبال کوثر کی غزلیں اور نظمیں فنون میں باقاعدگی سے شایع ہونے لگیں۔ اقبال کوثر نے اپنی عمر کا ایک حصہ راولپنڈی میں آفتاب اقبال شمیم اور اس عہد کے دیگر دوستوں کی ہمراہی میں آوارگی میں گزارا کہ جب ان سب کا مقصد اچھی اور نئی شاعری کی تخلیق کے علاوہ کچھ نہ تھا، جہلم کی نجی محفلوں میں وہ ان دنوں کا ذکر بڑی محبت سے کرتے تھے۔
اقبال کوثر کی تخلیقی زندگی کی آخری چار دہائیاں جہلم، دینہ، سرائے عالمگیر، گجرات اور اس کے نواح میں چھوٹے قصبوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ وہ صبح بیدار ہونے کے بعد تیار ہوتے، ناشتہ کرتے اور پھر جس طرح کسی ضروری کام سے گھر سے نکلتے ہیں، چل پڑتے۔ کالا گجراں کی سڑک پر چلتے، راستے میں دوستوں سے ملتے، سگریٹ فیکٹری کے بس سٹاپ پر پہنچ جاتے اور پھر وہاں فیصلہ ہوتا کہ عازم سفر دینہ کی جانب ہونا ہے یا جہلم کی جانب۔پیدل، تانگے پر یا پھر ویگن اور بس میں، ہر طرح کی سواری پر سفر میں رہتے اور دن کا بڑا حصہ ایسے ہی گزر جاتا۔سرائے عالمگیر جاتے تو قیام سید عنصر کے میڈیکل سٹور پر ہوتا۔جہلم جاتے تو ٹھکانہ ہمدانی ٹی سٹال ہوتا۔جب تک امداد ہمدانی زندہ رہے، ان کا ٹی سٹال چلتا رہا، اقبال کوثر کی بیٹھکیں وہاں تسلسل سے جاری رہیں۔ اس کے بعد کچھ عرصہ یاسمین سحر کے ہاں بھی جاتے رہے۔ دینہ جاتے تو شہزاد قمر کی ٹیلرنگ شاپ پر کم ہی پہنچ پاتے، راستے میں ہی کہیں نہ کہیں ٹھکانہ مل جاتا، کبھی صدیق سورج کہ جو پہلے صدیق بیدل کہلاتے تھے، کے پاس اور کبھی کسی اور دوست کے پاس۔پاؤں کے اس سفر میں ان کا تخلیقی عمل جاری رہتا اور وہ مسلسل اپنی غزلوں یا نظموں پر نظر ثانی کرتے رہتے۔ عمر کے آخری برسوں میں بیماری نے آن لیا اورچند برس صاحب فراش رہے۔کبھی کبھار دوست ملنے ان کے گھر چلے جاتے۔مگر بیماری کے دنوں میں بھی ذہنی اور تخلیقی صلاحیتیں متاثر نہیں ہوئیں۔
انگلینڈ جانے سے پہلے سلیم فگار نے اپنا بہت سا وقت ان کے ساتھ گزارا۔ سلیم فگار کے ساتھ ان کو قلبی لگاؤ ہو گیا تھا اور سلیم فگار کے ساتھ اُن کا اچھا وقت گزرتا۔سلیم فگار کے انگلینڈ چلے جانے کے بعد اقبال کوثر کی پہلے جیسی مصرفیات شروع ہو گئیں۔سلیم فگار سے بھی بہت پہلے اقبال کوثر کے ساتھ احمد لطیف کا ایسا ہی استاد شاگرد والا رشتہ تھا۔اور احمد لطیف کراچی جانے سے پہلے اپنا بہت سارا وقت اقبال کوثر کے ساتھ ہی گزارتا تھا۔مسرت ہاشمی جب تک جہلم میں رہا، اقبال کوثر اس کی دکان میں بیٹھتے رہے۔نصیر کوی جب تک زندہ رہا، بلال ہوٹل کے سامنے اس کی دکان ان کا ٹھکانہ بنتی۔کبھی کبھار اقبال ناظر کے پاس کالا موڑ کے ساتھ کسی نہ کسی ہوٹل میں بیٹھتے رہے۔جن دنوں جواز جعفری بسلسلہ ملازمت جہلم میں رہے، ان کی ملاقاتیں بھی اقبال کوثر کے ساتھ تسلسل سے ہوتی رہیں۔انجم خیالی لندن سے آتے تو دوست کہیں نہ نہیں اکٹھے مل بیٹھتے، جہاں اقبال کوثر کی موجودگی لازم ہوتی۔چوہدری فضل حسین زمیندارہ کالج سے ریٹائر ہوئے تو انہوں نے ملک انوارالحق کے دفتر میں بزم فیض کی مجلسوں کی رونق بحال کی تو وہاں اقبال کوثر شامل ہوتے۔
اقبال کوثر کو اکثر احباب کتاب کی اشاعت پر اصرار کرتے تھے مگر آپ وعدوں اور دوستوں کے بے پناہ اصرار کے باوجود شعری مجموعے کی اشاعت کے لیے خود کو تیار نہ کر پاتے۔ دوست انہیں تو کچھ کہہ نہ پاتے، یوسف حسن کی جانب اپنی توپوں کا رخ کر دیتے۔ مگر اقبال کوثر کا مسئلہ کیا تھا، اس سے یوسف حسن بخوبی آگاہ تھے۔اور یوں کئی دہائیوں کے اصرار کے بعد ان کی کتاب 2002 ء میں ”مرے راستے، مرے ہمسفر“ کے نام سے تخلیقات نے لاہور سے شایع کر دی جس میں اُن کی 131 غزلیں شامل ہیں۔پس سرورق ان کا معروف شعر تحریر ہے:
جس طرح لوگ خسارے میں بہت سوچتے ہیں آج کل ہم ترے بارے میں بہت سوچتے ہیں
جب تک تنویر سپرا، مختار جاوید، نصیر کوی، مسرت ہاشمی زندہ رہے، آتے جاتے، دوسرے چوتھے روز اقبال کوثر صاحب ان سے ملاقات کرنے ان کے ٹھکانوں پر پہنچ جاتے۔ چند روز تک اگر ان کا چکر نہ لگتا تو دوست احباب ذکر کرنے لگتے، کئی دن سے اقبال کوثر صاحب نے شرف ملاقات نہیں بخشا، کیا بات ہے، کسی نے انہیں دیکھا ہے، کہاں ہیں، کدھر ہیں؟ اقبال کوثر کا شاعری کے حوالے سے اپنا ایک نقطہ نظر تھا۔ وہ کوئی شعری روایت سے الگ نہیں تھا مگر پھر بھی ان کے اپنے کچھ اصول تھے۔ کسی لفظ کے استعمال یا اس کے تلفظ کے بارے میں شک میں پڑ جاتے تو اس کی سند اقبال سے ڈھونڈتے۔ ان کو یہ اعتماد تھا کہ اقبال کے ہاں مستند حوالہ مل جائے گا۔ وہ دوستوں کو بھی اس بات پر اصرار کرتے کی وہ علامہ اقبال کی شاعری سے سند حاصل کیا کریں، وہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے وہ غالبؔ یا میر ؔسے بھی زیادہ اقبال سے متاثر تھے۔اپنے شعری مجموعہ کے دیباچے میں انہوں نے اقبال کے حوالے سے کہی جانے والی بات کہ وہ اشعار یوں لکھواتے تھے جیسے اُن پر اسی وقت نزول ہو رہا ہے،کو مسترد کیا ہے اور اس کو ان کے حافظے کا اعجاز کہا ہے۔یعنی علامہ اقبال شعر پہلے کہہ لیتے تھے، حافظے میں محفوظ کر لیتے اور پھر بعد میں لکھوا دیتے یا خود لکھ لیتے۔ شعر کو بنانے سنوارنے کا عمل اس دوران انکے ہاں حافظے کی بنیاد پر ہوتا رہتا۔
اقبال کوثر کا خیال تھا کہ شاعری ”کسی تخلیقی فکرو خیال کے لمحات میں کچھ الفاظ و عبارات اپنے عصری معانی کے ساتھ“ اترنے کا عمل ہے جنہیں وہ ”وقتاًفوقتاً شعری اظہار کی ترتیب“ میں لاتے رہتے ہیں۔ اقبال کوثر نے اس تخلیقی عمل کے آخری برسوں میں تقریباً غزل کہنا ترک کر دیا تھا۔ ایک بار ان سے اس حوالے سے گفتگو ہوئی تو کہنے لگے، نظم کی لائنیں تو شاید یاد رہ جائیں، مگر نظم یاد نہیں رہتی اور شاعری وہی لوگوں کے حافظے میں محفوظ رہے گی جو یاد رہے گی۔ اس لیے ان کا خیال تھا کہ نظم کے بجائے غزل ہی لکھی جانی چاہئے۔ مزید ُان کا نقطہ نظر یہ بھی تھا کہ غزل کا ہر شعر الگ سے اپنی انفرادیت رکھتا ہو، تا کہ غزل سے الگ بھی وہ اپنے معانی کی پوری ترسیل کر سکے۔ ان کے خیال میں غزل کے اشعارمیں معنی یا موضوع کی سطح پر نظم جیسا تسلسل نہیں ہونا چاہئے۔ وہ اپنی غزلوں پر اس طرح سے بھی نظر ثانی کرتے رہتے۔ وہ غزل کو نظم کے اندر موجود معنوی تسلسل سے بالکل الگ رکھنے کے قائل تھے۔ یہاں تک کہ اُن کے ہم عصروں کے برعکس ان کے ہاں کہیں بھی ہمیں قطعہ بند اشعار نہیں ملتے۔ اُن کے نزدیک ”ایک شعر کو ایک تخلیقی اکائی کی حیثیت سے غزل کی ترتیب سے الگ بھی اپنے مطلوبہ فنی لوازم کے ساتھ ساتھ خیال و حسن اور مفہوم کی ندرت سے مایہ دار“ ہونا چاہئے۔تخلیقی عمل کو تسلسل سے جاری رکھنے کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک شعر کے بہتر ہونے اور اس میں کہی جانے والی بات کی موثر انداز سے ترسیل تب ہی ہو سکتی ہے جب بار بار آپ اس میں پیش کردہ معانی کی پیش کش کو بہتر بنانے کے عمل میں لگے رہیں گے۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کوئی شعر اپنی حتمی صورت میں کبھی بھی شاعر پر نہیں اترتا۔ ایک ہیولہ سا ہوتا ہے جس کو مکمل طور پر الفاظ کا لبادہ پہنانے میں، بنانے اور سنوارنے میں، اُس کے بہترین صوتی اور معنوی حسن تک رسائی کے لئے مسلسل محنت کی ضرورت ہے۔
اقبال کوثر نے اپنی شاعری میں غزل یا نظم کی ہئیت کے حوالے سے کوئی تجربہ نہیں کیا۔ وہ اس بات کے مخالف نہیں تھے مگر ایسے بھی نہیں تھے کہ قواعدِ شعری میں ایک حد سے زیادہ جدت اختیار کی جائے اور اپنے اور روایت کے درمیان فاصلے پیدا کر لیے جائیں۔ اقبال کوثر کے نزدیک اچھا شعر وہ تھا جو معیار قبولیت پر پورا اترے۔ ان کے نزدیک ایک اچھے شعر میں ”نئے مضمون و خیال، اچھے اور قدرے تہہ دار مفہوم و معانی اور اُن کے مطابق مناسب الفاظ کے درو بست کا قرینہ“ لازمی شرائط میں تھا۔نہ تو ”بوجھل امیجری میں دبا ہوا“ اور نہ ہی ”بے جا آرائشی لفظی تکلف میں ڈوبا ہوا“ ہونا چاہئے۔وہ اس بات کے قائل تھے کہ ”ایک شعری خیال، اپنی تمثال، ہئیت، اسلوب اور الفاظ و عبارات کے ابتدائی اشارات فطری طور پر اپنے ساتھ لے کر آتا ہے“۔ وہ تخلیقی عمل کو فطری ذہنی عمل سمجھتے تھے۔وہ اس بات کی سخت مخالفت کرتے تھے کہ اساتذہ کے ہاں اشعار میں معانی کی ایک سے زائد پرتیں لیے ہوئے شاعری بڑی اور اعلیٰ شاعری ہے۔ ان کے نزدیک شعر میں معنی کی ایک ہی پرت ہوتی ہے اس کے علاوہ جو کچھ جوڑا جاتا ہے وہ نقادوں کی اپنی ذہنی اختراع اور”شارحین کی ذاتی موشگافیوں“ کے سوا کچھ نہیں۔ شاعر اپنے شعروں میں دانستہ ایسا کثیر معنوی پرتوں کا اہتمام نہیں کرتا، اب یہ اتفاق ہے کہ الفاظ کے برتاؤ کی وجہ سے کوئی ایسا کرتب ہو جائے کہ ایک سے زائد مفہوم نکل آئیں۔یا ”مرکزی خیال کے ساتھ کوئی الحاقی خیال وابستہ ہو جائے“۔
اقبال کوثر مشاعروں کو عوام تک پہنچانے کے لیے مشاعروں کی اہمیت کے قائل تھے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے مشاعرے کی روایت دم توڑتی چلی گئی۔ انہوں نے دیکھا کہ دو اور تین نمبر شاعر یا تیسرے درجے کے شاعر مشاعروں میں اسٹیج پر براجمان ہونے لگے تھے۔ آج سے تیس برس پہلے انہوں نے ایسے مشاعروں میں جانا کم کر دیا اور بتدریج جوں جوں بیرون ملک سے آئے متشاعر اسٹیج پر قابض ہوتے گئے وہ مشاعروں سے دور ہوتے چلے گئے۔ سامعین کا مزاج بھی ”تفنن طبع اور تماش بینی کی مشغلہ بازی“ کے مطابق بدلتا چلا گیا۔ اقبال کوثر کے نزدیک مشاعرے ”مناسب درجے کے شعرو سخن کی پیش کش اور فروغ کا ایک معتبر میڈیم تھے، گھٹیا اور مسخرے شاعروں کی مقبولیت“ کا معیار بنتے چلے گئے۔ اقبال کوثر جیسے جینوئن شاعر کو ایسے مشاعروں اور متشاعروں کے خلاف ردعمل ظاہر کرنا چاہئے تھا، جو انہوں نے کیا۔ اور بتدریج مشاعروں میں شرکت کم کرتے چلے گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ”شاعری سے بے بہرہ لوگ بھی دیکھا دیکھی شاعر کا بہروپ بھر کر باہر نکلے آ رہے ہیں۔ آج کسی شاعر کے پاس بیٹھے ہیں، اور دو روز کے بعد کوئی ایسا شارٹ کٹ مار لیا کہ مانگے تانگے کی غزلوں،نظموں کے ساتھ مشاعرے کی اسٹیج پر یکایک بحیثیت شاعر نمودار ہوئے نظر آتے ہیں“۔ اقبا ل کوثر نے تین دہائیاں قبل اپنے خدشات کو اظہار کر دیا تھا جسے تحریری طور پر انہوں نے اپنے شعری مجموعے کا حصہ بھی بنایا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایس صورتحال کو نظر انداز کرنا، دراصل، ”شعرو ادب کی جینوئنٹی کے بتدریج ختم ہوتے چلے جانے کے یقینی امکانات کو کھلے طور پر قبول کر لینا ہے“۔ ان کے اس خدشے کی سچائی نے آج کل ادب کو ایک سماجی سرگرمی قرار دینے والے شعرا کی صورت میں ہر تقریب کے اسٹیج پر بٹھا دیا ہے۔
اقبال کوثر کی شاعری سے انتخاب پیش خدمت ہے: پھر نظر ملا مجھ سے، پھر بغور سن مجھ کو جو میں اسی خموشی کو ابتدا سے بولوں گا اب اپنا ہی گھر گویا، وہ گھر ہے جہاں بیٹے لیتے ہیں بزرگوں سے جینے کا کرایہ بھی زمینیں اس لیے دو گے کہ قبریں کھود لیں اپنی ملے گا اس لیے کپڑا کہ ہم کفنا دئیے جائیں میں نے جو تصویر بنائی آپ ادھوری رکھی ہے جتنی قربت قدر نہ کھو دے، اتنی دور ی رکھ ہے وہ جانتا تھا سجدہ فقط تجھ کو روا ہے پلٹا نہ پھر اس حکم سے تعمیل تو یہ تھی ترے خیال میں یوں بھی سفر کٹا اکثر کہ گھر کی راہ میں بھی میرا گھرنہیں آیا کہیں کیا حال قبروں کا کہ اب کے اس نے بستی میں جنازے بھی گزرنے کا کوئی رستا نہیں چھوڑا گر کر مرا گھر بن تو گیا ہے مگر اب کے اس میں مرے بچوں کی صدائیں نہیں آتیں