تحریر: سلطان حسین علامہ اقبال سے کسی نے پوچھا ” عقل کی انتہا کیا ہے” جواب ملا ”حیرت” پھر پوچھا ” حیرت کی انتہا” جواب ملا ” عشق” سوال کرنے والے نے پھر پوچھا عشق کی انتہا کیا ہے فرمایا ”عشق بے انتہا ہے اس کی کوئی انتہا نہیں ہے” سوال کرنے والے نے مسکرا کر کہا لیکن آپ نے تو لکھا ہے ” تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں” علامہ اقبال نے مسکرا کر کہا ”دوسرے مصرے میں اپنی غلطی کا اعتراف بھی تو کیا ہے کہ ” میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں” ۔
علامہ اقبال کو ہم اپنا قومی شاعر سمجھتے ہیں ان کی سادگی دیکھئے کہ وہ عشق کی انتہا چاہتے تھے لیکن پھر اپنی سادگی کا بھی انہوں نے اعتراف کرلیالیکن یہاں ہمارے بھائیوں کی سادگی دیکھئے کہانہوں نے کچھ عرصہ قبل اڑھائی سال میں ایک لاکھ چوہے مارنے کا دعویٰ تو کیا لیکن ساتھ ہی حکومت سے شہر کو چوہوں سے پاک کرنے کیلئے تعاون کی اپیل بھی کردی تھی یہ ان کی سادگی ہی توتھی حکومت کرنے والوں کو اپنی کرسی کی جھنٹ سے فرصت نہیں ملتی تو وہ چوہے مار مہم جسے غیر ضروری ” منصوبوں” کیلئے وقت کہاں سے دیں گے ظاہر ہے ۔
Funds
کہ ہمارا یہ بھائی تعاون ” فنڈ” کی صورت میں چاہیں گے اب فنڈ ہو گا تو وہ دیں گے وہ توپہلے ہی ” اپنوں” کو مراعات دینے اور تنخواہیں بڑھانے کیلئے پورے نہیں ہوتے پھر اگر تھوڑے بہت فنڈ رہ جائیں تو وہ دفاتر اور اسمبلیوں کی تزئین و آرائش کیلئے بھی نا کامی ہوتے ہیں پھر ستم بالائے ستم کچن کے اخراجات الگ ہیں پٹرول کے خرچے الگ ہیں دوروں کیلئے بھی کچھ بچاکے رکھنا پڑتا ہے اور کرسی چھوڑنے کے بعد کے خرچوں کیلئے بھی کچھ پس انداز کرنا پڑتا ہے اگر اس کے بعد بھی کچھ بچ جائے تو عوام کے مطالبات اتنے ہوتے ہیں ۔
سوچنا پڑتا ہے کونسا مطالبہ پورا کیا جائے ان سب ” خرچوں” کو پورا کرنے کیلئے وہ بے چارے سال بھر سوچتے ہیں اور پھر ان اخراجات کو عوام کی جیبوں سے نکالنے کیلئے دماغ لڑاتے ہیں اور منصوبے بناتے ہیں بڑی مشکل اور عرق ریزی سے سوچ بچار کے بعد لوگوں کی جیب سے پیسے نکالنے کیلئے پلان بناتے ہیں اور پھر بھی لوگ خوش نہیں ہوتے اور الٹا اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں یہ اب زیادتی ہے یا نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس شہر یااس ملک کو چوہوں سے کیوں صاف کیا جائے(یہاں تو چھوٹے چوہے اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا ”بڑے” چوہے کرتے ہیں ۔
Mice
یہ سوچنے والی بات ہے اس پر ضرور سوچنا چاہیے)اگر چوہوں سے شہر یا اس ملک کو صاف کر دیا گیا تو پھر بلیاں کیا کریں گی یہ تو بلیوں کا رزق ہے ۔۔۔یہ تو ان کے رزق پر ڈاکہ ڈالنے والی بات ہوئی نہ۔ اگر بلیوں نے انتقامی کارروائی شروع کر دی اور وہ بھی شدت پسند بن گئیں تو پھر کیا ہو گا؟پھر ایک نئی جنگ چھڑ جائے گی آپ اس کے بارے میں ضرور سوچیں میں ذرا ان صاحب کے دعوے کا پوسٹ مارٹم کرتا ہوں ۔کہا جاتا ہے کہ اڑھائی سالوں یعنی 913 دنوں میں ایک لاکھ چوے مارے گئے ‘ آپ اس کو دنوں میں تقسیم کر لیں تو ہر روز کے حساب سے یہ 109 چوہوں کے مارے جانے کی تعداد بنتی ہے ۔
یعنی چوبیس گھنٹوں میں 109چوہے مارے جارہے ہیں اور اگر اس کوفی گھنٹے کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ 9 چوہے فی گھنٹہ بنتے ہیں اب آپ خود سوچیں کیا یہ ممکن ہے؟ کیا چوہے خود اپنے آپ کومارنے کے لیے پیش کریں گے اس کا مزید پوسٹ مارٹم بھی ہو سکتا ہے لیکن چلیں چھوڑیں رہنے دیں کیونکہ دعوے تو دعوے ہی ہوتے ہیں اور پاکستان میںدعوے کس نے پورے کئے ہیں اب ہمارے حکمرانوں کے دعوے ہی دیکھ لیںیا سیاستدانوں کے دعووں کو ہی دیکھ لیںگذشتہ اڑسٹھ سال سے تو ہم انہی سنہرے خوابوں اور دعووں کے سہارے ہی زندگی گزار رہے ہیں قارئین آپ کا کیا خیال ہے ۔