تحریر: شاہ محمود خان مومند آج سے 17 سال پہلے جب میں نے پانچویں کلاس پاس کی تو کورس بک کے ساتھ ساتھ میرے بھائی نے چند بچوں کے کتب اور رسالے بھی مجھے پیش کیے، رسالے پڑھتے ہوئے مجھے اس کے لیے لکھنے کا شوق بھی ہوا کیونکہ ان رسالوں میں اکثر مڈل سکول کے بچے لکھتے تھے،میری یہ کوشش تقریباً ایک سال تک جاری رہا اور آخر کار 2001ئ کے آخر میں میری ایک کہانی اخبار کی زینت بن گئی لیکن اس کے لیے مجھے اتنے عرصے تک مختلف کتب اور رسالوں کا مطالعہ کرنا پڑا۔لیکن بدقسمتی سے آج کل ہمارے نوجوان کتاب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔نہ صرف نوجوان بلکہ ان کے والدین بھی انہیں بہترین مواد فراہم نہیں کرتے اور نہ انہیں اس طرف راعب کرتے ہیں۔ غیرنصابی تو دور کی بات اکثر نوجوان نصابی کتب سے بھیکنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں اور انٹر نیٹ سے کام چلاتے ہیں۔ یعنی ایک کہانی شائع کروانے کے لئے مجھے ایک سال تک مطالعہ کرنا پڑا۔ پھر ایسا وقت آیا کہ ہر ماہ کسی نہ کسی رسالے میں کہانی شائع ہوتی رہی اور ایک دن ایسا آیا کہ ان کہانیوں کا مجھے معاوضہ بھی ملنے لگا۔
اکبراعظم کے زمانے میں وسطی ایشیا کے کسی حکمران نے کہا تھاکہ ”مجھے اکبر کی تلوار سے اتنا خوف نہیں آتا جتنا کہ ابوالفضل کے قلم سے ڈر لگتا ہے۔”یعنی قلم تلوار سے بہترہتھیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں اہل علم و ادب کا بہترین مقام ہوتا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جب 1857ئ کی جنگ آزادی ناکام ہوئی تو مسلم رہنمائوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک ہم علم کی روشنی سے منور نہیں ہونگے تب تک آزادی حاصل کرنا ناممکن رہے گا اور اس کوشش کے لیے تقریباً 90سال لگ گئے۔ یوں 1947میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔اس کوشش کے پیچھے دوسرے رہنمائوں کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کی شاعری، نوجوان نسل کے لیے ان کے اقوال و افکار امید کا پیغام لائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہمارے ملک اور نوجوانوں کے حالات خراب ہوتے ہیں تو ہم قائد کے اقوال اور اقبال کے افکار کی طرف ہی توجہ دیتے ہیں۔ جو کہ ہمارے نوجوانوں کے لیے نئے خون اور جذبے کا کام سرانجام دیتے ہے۔اسی ضرورت کے تحت مستقیم خان نے علامہ اقبال پر ایک خوبصورت اور دلچسپ کتاب لکھی ہے تاکہ ہمارے نوجوانوں میں جذبہ حب الوطنی، پیرویٔ اسلام اور ملک و ملت کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔جس وقت میں بچوں کے لیے لکھتا تھا اور بچوں کے رسائل وغیرہ پڑھتے تھے تو ان اخبارات و رسائل میں اکثر جو نام میرے سامنے آتے تھے ان میں ایک مستقیم خان کا نام بھی شامل تھا۔
”اقبال نامہ نسل نو کے لیے” مستقیم خان نے لکھی ہے، مجھے یہ کتاب پڑھنے اور اس پر تبصرہ کی ذمہ داری بھی ملی۔ کتاب کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پتہ ہی نہ چلا کہ 144صفحات پر مشتمل کتاب کب پڑھنا شروع کی اور کب ختم ہوگئی؟ چونکہ اقبال اقبال ہے، اقبال کی ہر بات، ہر قول، ہر شعر اور زندگی کا ہر گوشہ نہ صرف بچوں، بلکہ بڑوں، خواتین اور ہر مکتبہ علم سے تعلق رکھنے والوں کے لیے یکساں مفید ، دلچسپ اور سبق آموز ہے لیکن ساتھ میں مصنف نے جس کوشش سے اس میں دلچسپی اور شیرینی ڈال دی ہے اس کا اندازہ کتاب شروع کرنے کے بعد ہی ہو جاتا ہے۔ مصنف نے کتاب کو لکھنے کے لیے انصاف سے کام لیا ہے۔
میں چونکہ بچپن سے مصنف کی بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں، مضامین اور تحاریر پڑھتا آرہا ہوں اس لئے مصنف کے اسلوب اور محنت سے بھرپور واقف ہوں لیکن اس کتاب کو لکھنے میں انہوں نے نہایت کمال اور مہارت سے کام لیا اور اپنے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اقبال نامہ کو بہترین انداز میں تحریر کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جبکہ پبلشنگ، ٹائٹل بنوانے اور ترتیب میں بھی انہوں نے بے تحاشہ لگن دکھائی ہے۔ دیدہ زیب ٹائٹل اور آرٹ پیپر پر شائع ہونے والی یہ کتاب ایک بہترین تحفے سے کم نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہترین مواد اور تخلیق سے بھی کتاب کو چار چاند لگانے میں اپنی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔
کتاب پر تبصرہ کرنے سے پہلے چند باتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ اس عظیم ہستی پر لکھنا جتنا آسان تصور کیا جاتا ہے اس سے کئی ہزار گنا مشکل ہے کیونکہ اقبال پر ہزاروں لوگوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ہے، اقبال کی ایک ایک بات ، ایک ایک لمحے پر اور اقبال کی زندگی کے ہر گوشے پرکتب، مقالے اور تحاریر موجود ہیں۔ ایسی حالت میں اقبال پر لکھنا اور پھر خاص کر بچوں کے لیے جوئے شیر لانے کے برابر ہے اور یہ میرے خیال میں صرف مستقیم خان ہی کر سکتا تھا۔
اقبال کی زندگی اور ان کے افکار میں ویسے بھی بچوں، بڑوں، جوانوں، خواتین الغرض ہر کسی کے لیے یکساںرہنمائی کا ذریعہ ہے ایسے حالات میں بچوں کے لیے خاص طور پر لکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے لیکن یہ مشکل مستقیم خان نے نہایت احسن طریقے سے انجام دی ہے۔ 144صفحات پر مشتمل کتاب بہترین ٹائٹل، آرٹ پیپر پر شائع کی گئی ہے۔آٹھ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے پہلے باب میں ”حیات اقبال ؛ ایک نظر میں ” شامل ہے جس میں اقبال کی زندگی کے خاص واقعات کوایک ایک لائن میں بیان کی گئی ہے۔ اس باب میں بچپن سے لے کر ان کی وفات تک مختصراًان کی پوری زندگی بیان کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں ”ابتدائی تعارف، والدین، معلمین”کا مختصر تعارف اور ان کے ساتھ اقبال کے گزرے ہوئے لمحات کو بڑے جامع اور خوبصورت انداز میںشامل کیا گیا ہے۔تیسرے باب میں اقبال کی شاعری،کتابوںکاتعارف(نثر و نظم)اور اس کامجموعی جائزہ شامل کیا گیا ہے، جس میں اقبال کے ادب کے لیے خدمات، شاعری میں اقبال کے استعارات اور جدت کو دلچسپ اور موزوں انداز میں شامل کیا ہے۔ اس کے علاوہ قارئین کے لیے یہ بات جاننا باعث مسرت ہوگی کہ اقبال نے نثر اور نظم دونوں میں ملک وملت کی کس قدر خدمت کی ہے۔باب چہارم میں چند ایسی باتوں کا تذکرہ ہے کہ” اقبال تصورِ خودی، مردِ مومن، عشقِ حقیقی، اقبالا ور محبت رسول ۖ، اقبال اور قرآن، پسندیدہ تہذیب اورآزادی کا مقام” کسے سمجھتے تھے اور بچوں اور نواجوں کے لیے اس میں کیا پیغام پوشیدہ ہے اور کتنے بہترین انداز میں انہیں خود اعتمادی کا سبق دیا ہے۔
پانچویں باب میں ”اقبال کا پیغام نسل نو کے نام” شامل ہے ۔ یہ باب کتاب کا بہترین باب تصور کیا جائے تو اس میں مبالغہ نہیں ہوگا۔ اس باب میں بچوں کے لیے اقبال کی نظمیں اور ان نظموںکے خلاصہ جات بہترین انداز میں تحریر ہیں۔ یہ باب اقبال کا پیغام بچوں اور نوجوانوں میںاتنے اچھے سے پہنچانے کا کام کرتا ہے کہ شائد اقبال اپنے زمانے میں بھی بچوں کو اپنا پیغام اسی انداز میں نہ پہنچا پاتے۔ چونکہ اقبال کی شاعری میں فارسی کے الفاظ بہت زیادہ ہیں جو عام قارئین کے لیے مشکل ہیں مگر اقبال کی شاعری میں ترنم نے اس کو دلچسپ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہے اور مصنف نے ان نظموں کے خلاصے لکھ کر اس مشکل کو ختم کر دیا ہے، دراصل مصنف نے یہاں اس بات کی ضرورت محسوس کی ہے کہ قارئین ترنم سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا مطلب بھی سمجھ لیں اور اقبال کا پیغام بھی انہیں پہنچایا جائے۔ یہ باب بچوں اورنوجوانوںکے لئے اکسیجن کا کام دیتا ہے اور کتاب کے اس باب میں مصنف نے اپنا مقصد اور پیغام غیر محسوس طریقے سے پہنچایا ہے۔یہ باب بظاہر نوجوانوں کے لیے ہے لیکن بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کے لیے اس میں رہنمائی ہے جبکہ مصنف کے دلچسپ، جامع اور خوبصورت اندازِ تحریر نے اس میں چار چاند لگا دئیے ہیں۔ چونکہ ملک اور خاص کر فاٹا اور خیبر پختونخوا کے حالات ایسے نازک موڑ پر ہیں جہاں مایوسی اور ناامیدی کے سوا نوجوانوں کو دوسرا راستہ نظر نہیں آتا وہاں یہ کتاب اور خاص کر یہ باب ایسی رہنمائی فراہم کرتا ہے جس طرح 1857ئ سے1947ئ تک کے حالات میں اقبال نے نوجوانوں کو امید اور روشنی فراہم کی تھی۔ یقینِ محکم ہے کہ یہ کتاب اور یہ باب نوجوان نسل کو مایوسی سے نکال کر اپنے ملک و ملت، اسلام اور دو قومی نظریے کو تقویت بخشے گا۔
چھٹا باب ”اقبال —مشاہیر کی نظر میں” ہے، جس میں دنیا کی عظیم ہستیوں کا اقبال کے حوالے سے ان کے خیالات کو شاندار انداز میں بیان کیا گیا ہے، ان کو پڑھ کر آپ کواندازہ ہو جائے گا کہ یہی ہستیاں اقبال کی جدوجہداور ملک و ملت کے لیے ان کی کوششوں کو کس خوبصورت نظر سے دیکھتی ہیں اور ان کے کام، لگن اور محنت کی معترف ہیں۔
ساتویں باب میں”اقبال کے حوالے سے منتخب واقعات” شامل ہیں۔ جس میں اقبال کی حاضر جوابی، دانشمندی، مدلل جوابات، اسلام سے محبت وغیرہ کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ یہ باب بھی بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ہر عمر کے لوگوں کے لیے یکساں مفید ہے۔ اسی باب میں ”اقبال کا کمال، اقبال– اپنی نظر میں، اقبال ماہر تعلیم کی حیثیت سے” بھی شامل ہیں جبکہ اسی باب کے آخر میں ”افکار اقبال” کو بھی شامل کیا گیا ہے جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اقبال کی ایک ایک بات آج بھی ہمارے لیے باعث رہنمائی اور مشعل راہ ہے۔
آخری باب ”اقبالیات” کے نام سے ہے جس میں علامہ محمد اقبال کے حوالے سے ہونے والے کام کا تعارفی جائزہ پیش کیا گیا ہے، حالانکہ اقبال پر اس سے سینکڑوں گنا زیادہ لکھا گیا ہے، مگر مصنف نے چند اہم اور بہترین کا م کا نچوڑ بطور نمونہ یہاں شامل کیا ہے۔
یہ کتاب نہ صرف بہترین مواد پر مشتمل ہے بلکہ دیدہ زیب اور خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ ساتھ ایک بہترین تحفہ بھی ہے۔ امید ہے کتاب تمام عمر کے بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں مفید ثابت ہوگی۔اور مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد نوجوان کتب بینی کی طرف راعب ہو جائیںگے اور اپنے ملک و ملت اور اپنے آنے والے نسل کے لیے کچھ کر دکھائیں گے۔ انشاء اللہ
اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے مصنف کے ساتھ اس نمبر0344-9062900رابطہ کر سکتے ہے، یا ”یونیورسٹی پبلشرز، افغان مارکیٹ، قصہ خوانی بازار،پشاور091-2590061” سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔