تہران (اصل میڈیا ڈیسک) صحافی زہرہ نادر نے تہران میں ایک افغان مہاجر کے طور پر اپنے قیام کے دوران ہونے والے تجربات یاد کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایران میں جس تعصب کا سامنا انہوں نے انیس سو نوے کی دہائی میں کیا، وہ آج بھی ختم نہیں ہوا۔
جب میں ایران میں افغان مہاجرین کی صورت حال کے بارے میں کچھ پڑھتی ہوں، تو میرے اپنے پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں، وہ جانبدارانہ اور متعصبانہ سوچ جس کا تجربہ خود مجھے بھی ایران میں ہوا تھا۔ ایران میں افغان مہاجرین کو دوہرے تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے: ایک وہ منظم نسل پرستی جس کو ملکی قوانین ہوا دیتے ہیں اور دوسرا مقامی آبادی یا برادری کی سطح پر پایا جانے والا تعصب۔
تعصب کی پہلی قسم کے تحت افغان مہاجرین پر اضافی فیسیں اور ٹیکس لگائے جاتے ہیں اور انہیں عوامی شعبے میں حاصل ہونے والی خدمات تک رسائی نہیں دی جاتی۔ لیکن زیادہ خطرناک کمیونٹی کی سطح پر پایا جانے والا تعصب ہے۔ ایرانی عوام روزانہ کی بنیاد پر افغان مہاجرین کی تذلیل کرتے ہیں، اور یہ بات انہیں ذہنی طور پر اس طرح متاثر کرتی ہے کہ ان کی خود اعتمادی ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی مستقبل کے بارے میں ان کی تمام امیدیں بھی۔ یہ اسی ماحول کا نتیجہ ہے کہ ایران میں افغان مہاجرین کی ایک پوری نوجوان نسل خوف اور تضحیک کی فضا میں پرورش پا رہی ہے۔ زہرہ نادر لکھتی ہیں:
انیس سو نوے کی دہائی میں جب افغانستان میں ہزارہ جات کا ہمارا آبائی علاقہ طالبان کے کنٹرول میں تھا، میرے والدین ترک وطن پر مجبور ہو گئے اور ایران وہ واحد ملک تھا جس کے بارے میں وہ کچھ جانتے تھے۔
جب ہم تہران کے نواح میں جعفر آباد کے ایک پسماندہ اور غریب علاقے میں پہنچے تو میری عمر صرف سات سال تھی، ایسی عمر جس میں بچوں کو اسکول جانا چاہیے۔ میری والدہ مجھے چند ماہ کے اندر اندر کئی مختلف اسکولوں میں لے کر گئیں لیکن مجھے ایک طالبہ کے طور پر وہاں قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
اب مجھے یہ علم نہیں کہ تب تارکین وطن یا مہاجرین کے طور پر ہماری قانونی حیثیت کیا تھی لیکن میرے والد کے بقول ان کے پاس جو بھی کاغذات تھے، انہیں اسکولوں حکام نے کچھ بھی نہ سمجھا اور مجھے میرے تعلیم کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ ایک رات جب میری عمر نو سال تھی اور میرا نوجوان بھائی، جس کی عمر ابھی انیس سال سے بھی کم تھی اور جو ایک گلاس فیکٹری میں ڈبل شفٹ میں کام کرتا تھا، گھر لوٹا تو اس کے پاس ایک اچھی خبر تھی۔
ہمارے گھر کے پاس ہی افغان مہاجرین کے بچوں کے لیے ایک اسکول کھل گیا تھا، جسے افغان باشندے ہی چلاتے تھے۔ میں بڑے جوش میں آ گئی اور مجھے ساری رات نیند نہیں آئی تھی۔ میں یہ سب کچھ سوچتی رہی کہ میں اپنے اساتذہ کو کیسے مخاطب کروں گی، کوئی یونیفارم بھی پہننا پڑے گا، جیسے ایرانی بچے اسکول جاتے ہوئے پہنتے ہیں؟
پھر جب ہمارا اسکول میں داخلہ ہوا تو میں اور میری بڑی بہن معصومہ نے اپنے گھر کے لباس میں ہی اسکول جانا شروع کیا۔ کمرہ جماعت افغان بچوں سے بھرا ہوا تھا اور تمام بچے زمین پر ہی چار قطاروں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں اپنی ٹیچر کے سامنے پہلی قطار میں بیٹھی تھی: زہرہ، ایک افغان مہاجر لڑکی جسے اسکول میں داخلہ مل گیا تھا۔
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 19 تا 25 نومبر کے دوران ہزاروں افغان مہاجرین کو ایران سے افغانستان واپس لوٹایا گیا۔ اس تنظیم کا کہنا ہےکہ مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کی ایک وجہ ایران میں تارکین وطن کے لیے پناہ گاہوں کی اب تر ہوتی صورت حال ہے۔
ہمیں اسکول جاتے ہوئے ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ ایک روز میری والدہ نے اعلان کر دیا کہ اب ہم اسکول نہیں جا سکتے۔ میرے والد اور بھائیوں کی محنت مشقت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے صرف ہمارے گھر کا کرایہ اور کھانے پینے کا خرچ ہی پورا ہو سکتا تھا۔ اس رات میں اپنے کمبل کے نیچے بہت دیر تک روئی تھی۔ میں نے اپنے اسکول کو خیرباد کہنے کا وعدہ تو کر لیا اور اس کے ساتھ ہی اپنے تمام خوابوں کو بھی، لیکن میں اس میں کامیاب نہ ہو سکی۔
جب میں نے اسکول جانا بند کر دیا تو گھر میں مجھے یہ کام سونپا گیا کہ میں دن میں دو مرتبہ قلعہ یداللہ نامی قریبی علاقے میں ایک بیکری سے روٹی لے آیا کروں۔ ایک دوپہر میری ہی عمر کی ایک ایرانی لڑکی بیکری سے واپس آتے ہوئے میرے راستے میں کھڑی ہو گئی۔ میں نے سنہری رنگ کے کناروں والا ایک کالا اسکارف پہنا ہوا تھا۔ ”اپنا اسکارف مجھے دے دو،‘‘ اس لڑکی نے کہا۔ میرے ہاتھ میں چار بڑی بڑی گرم گرم روٹیاں تھیں، جنہیں میں نے اپنے سینے سے لگا رکھا تھا۔ میں نے اس لڑکی کو اپنا اسکارف نہ دینے کی جو بھی وجہ پیش کی، وہ اس سے مطمئن نہ ہوئی اور یہی کہتی رہی کہ مجھے اپنا اسکارف دے دو۔ میرا گھر قریب ہی تھا۔ میں نے ہمت کی اور بھاگ کر اپنے گھر جا رہی تھی تو اس لڑکی نے پیچھے سے چیخ کر کہا، ”بدتمیز افغان! میں تمہیں کل دیکھ لوں گی۔‘‘
اگلے چند روز تک جب میں اس لڑکی کے گھر والے علاقے سے گزرتی تو میری والدہ میرے ساتھ ہوتی تھیں۔ بعد میں ثابت یہ ہوا کہ وہ لڑکی افغان بچوں کو ہراساں کرنے والی کوئی واحد ایرانی لڑکی نہیں تھی۔ پھر میں نے اپنے افغان ہونے کی شناخت ہو جانے سے بچنے کے لیے ایرانی فارسی کا لسانی لہجہ بھی اپنا لیا تھا۔ مگر یہ بھی میرے کسی کام نہ آیا۔ میں بیکری سے روٹی لینے کے لیے بڑوں کے ساتھ قطار میں کھڑے ہوئے بھی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی تھی۔ ایرانی عورتیں مجھے کھینچ کر قطار سے باہر کر دیتیں اور میری جگہ لے لیتی تھیں۔
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
ایک واقعے نے مجھے ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ یہ واقعہ تہران سے شمال مشرق کی طرف بحیرہ کیسپیئن کے کنارے واقع ایرانی شہر عباس آباد میں پیش آیا تھا۔ میں دوپہر کے وقت ایک سٹور سے واپس گھر جا رہی تھی تو چند نوجوان ایرانی لڑکے گلی میں فٹ بال کھیل رہے تھے۔ ایک لڑکے نے فٹ بال کو بڑے زور سے کک لگائی اور وہ میرے کان کے قریب سر پر لگا۔ مجھے بہت درد ہوا اور میرے کان گونجنے لگے۔ میں رو پڑی تھی اور گھر کی طرف بھاگی۔ وہ لڑکا ہمارا ہمسایہ تھا اور گلی کے کونے پر ہی رہتا تھا۔ میری والدہ مجھے لے کر اس کے گھر کے دروازے تک گئیں تو اس کی ماں سنتی رہی اور اس نے کچھ نہ کہا۔ ایک اور ہمسایہ، جس کا بیٹا بھی فٹ بال کھیلنے والے لڑکوں میں شامل تھا، ہمارے سامنے آ کر چیخ کر بولا، ”تمہیں ہمت کیسے ہوئی ہمارے دروازے تک آنے کی؟ یہ ایران ہے۔ میری خواہش ہے کہ میرے بیٹے نے تمہاری بیٹی کو پیٹا ہوتا اور میں تمہارے گھر کا سامان اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دیتا۔ بدتمیز افغان! جاؤ، اپنے ملک واپس جاؤ!‘‘
وہ آدمی بولتا رہا لیکن مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اس روز میں نے اپنی بچی کھچی ہمت بھی ہار دی۔ اگلے دن میری سماعت تو کافی حد تک لوٹ آئی لیکن میں وہ ٹین ایجر لڑکی نہیں رہی تھی جو میں ایک روز پہلے تھی۔ اس کے بعد سے میں نے اپنی والدہ کے ساتھ کسی بھی معاملے میں کبھی دوبارہ کوئی شکایت نہ کی۔ میں نے وعدہ کر لیا تھا کہ میں نسل پرستی اور تعصب کے سامنے خاموش رہوں گی تاکہ کوئی میری ماں کی سرزنش نہ کرے۔ میں نے یہ وعدہ برسوں تک نہیں توڑا تھا۔ یہ وعدہ میں نے آج توڑا ہے۔ 2003ء کے بعد سے میں کبھی واپس ایران نہیں گئی، لیکن میرے اندر خوف اور تذلیل کا یہ احساس تو ہمیشہ موجود رہے گا۔
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
جب ہم نے ایران چھوڑا تو میرا ایک کزن جو ہمارے ساتھ ہی ہمارے رہائشی احاطے میں رہتا تھا، اس کی ایک دو سال کی بیٹی بھی تھی، جس کا نام زہرہ تھا۔ وہ آج بھی ایران میں ہی رہتے ہیں اور اس کی بیٹی خوش قسمت ہے کہ وہ اب ایک مقامی پبلک اسکول جاتی ہے۔ جب میں نے اس وقت انیس سالہ زہرہ سے بات کی، اور اس سے اس کی مستقبل کے بارے میں امیدوں سے متعلق دریافت کیا، تو اس نے اپنا جواب صیغہ ماضی میں دیا، ”مجھے ڈاکٹر بننا پسند تھا، بڑا شوق تھا مجھے۔ میں بہت اچھے نمبر لینے کے لیے سخت محنت بھی کرتی رہی تھی۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ افغان طلبا و طالبات یونیورسٹی جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے، تو میری امیدیں ناامیدی میں بدل گئیں۔‘‘
زہرہ کی باتیں سن کر میں سمجھ گئی کہ ایران میں افغان مہاجرین کی زندگی آج بھی زیادہ نہیں بدلی۔ زہرہ نے مجھے بتایا، ”ہمارے ایک ایرانی ہمسائے کا فون گلی میں گم ہو گیا۔ وہ ہمارے دروازے تک آ گیا، لیکن ہم گھر پر نہیں تھے۔ صرف میرا سب سے چھوٹا بھائی حسین گھر پر تھا۔ اس ہمسائے نے حسین کو پیٹا اور اس پر فون چوری کرنے کا الزام لگایا۔ پھر اس نے اسے دھمکیاں بھی دیں اور گالیاں بھی، یہ کہتے ہوئے کہ اس نے خود دیکھا تھا کہ اس کا فون حسین نے ہی چرایا تھا۔ اگلے روز اس شخص کے ایک اور ہمسائے کو اس کا فون گلی میں گرا ہوا ملا اور اس نے وہ فون اس کے مالک کو لوٹا دیا تھا۔‘‘
زہرہ اگلے سال اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کر لے گی۔ لیکن وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ وہ یونیورسٹی جا سکے گی، ”اگر میرے بہت اچھے نمبر آ بھی گئے اور میں نے داخلے کا امتحان پاس بھی کر لیا، مجھے پھر بھی اضافی فیس تو ادا کرنا پڑے گی۔ کیونکہ میں ایک افغان مہاجر ہوں۔ ‘‘ زہرہ کے ماں باپ دونوں ہی زرعی شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ کاشتکاری کرتے ہیں اور سلاد اگاتے ہیں۔ زہرہ کے مطابق، ”اگر میں خود کو مستقبل میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھ ہی نہیں سکتی، تو یہ سب کچھ فضول ہی تو ہے۔ میرا جوش و جذبہ ختم ہو چکا ہے۔‘‘