ایران اور افغانستان

Iran and Afghanistan

Iran and Afghanistan

تحریر : میر افسر امان

ایرانی وزیر خارجہ سعید خاتب زادہ افغانستان کی تازہ صورت حال پر کہا ہے کہ امریکا اور مغرب نے طالبان کے خوف سے اپنے سفارت خانے بند کر دیے ہیں۔ جبکہ ایریان کے کابل اور ہرات کے سفارت خانے کھلے ہیں۔ طالبان کی فتح کے بعد ایران کی خواہش ہے کہ تعلوقات بہتر رہیں۔ ٢٣ برس پہلے جب مزار شریف میں گیارہ ایرانی سفارت کار قتل ہوئے تھے تو ایران اور افغانستان کے درمیان جنگ کی کیفیت پیدا ہوئی تھی۔ ایران میں طالبان کے حق اور مخالفت میں ملا جلا رد عمل ہے۔ایران نے اپنی میڈیا کو ہدایت کہ ہے کہ ماضی میں طالبان کو وحشی ،مجرم اور ایسے القابات جو نوازہ جاتا اس کے لیے احتیاط کی ضرورت ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل ١٩٩٠ء سے ٢٠٠١ء تک انہی غیر مناسب القاب سے یاد کیا جاتا تھا۔ایران کے سیکورٹی اداروں نے کہا کہ طالبان اب ایک حقیقت ہیں اور حقیقت کو جٹلایا نہیں جا سکتا۔بیرون ملک میں اثر روسوخ بڑھانے کے لیے ایران کے اسلامی گارڈز کی طاقتور شخصیت اسماعیل قانی کو افغانستان میں جنگجووں کو منظم کرانے والا پرانا کھلاڑی کہتے ہیں۔اغانستان میں طالبان کی رتح کت بعد ایران میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔مشرقی ایرانی سرحد پر اثر رکھنے والے ایرانی حکومت کے حمایتی معروف سنی عالم مولوی عبدالحامد اسماعیل زحی نے طالبان کی فتح کو ایک بڑی کامیابی قارار دیا ہے۔وہ کہتے کہ طالبان وہ نہیں جو بیس برس قبل تھے۔

طالبان نے بہت کچھ سیکھا اور اپنے پرانی خیالات تبدیل کیے ہیں۔افغان ایران کے پڑوسی ہیں اس لیے ایران ان کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ طالبان نے اس سے قبل ہزارہ کیمونٹی کاگورنر منتخب کیا۔ طالبان نے اہل تشیع کی امام بارگاہوں اور کیمونٹی پر حملوں کی مزاحمت کرتے رہے ہیں۔داعش یا الشمس گروپ نے یہ حملے کیے تھے۔ یہ دونوں ایران کے مخالف ہیں۔مغربی کابل میں شیعہ برادری کے بچیوں کے اسکول پر حملے کی بھی مزاحمت کی۔طالبان نے شیعہ برداری کو مزار شریف میں عشورہ کا جلوس نکانے کی اجازت اور دس محرم کی چھٹی کی بھی اجازت دی۔ ایرانی پرانے دانشور اب بھی طالبان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ٢٠٠١ء میں ایران نے شامالی اتحاد اور نیٹو فورسز کی افغانستان میں جمایت کی تھی جس کی وجہ سے امارت اسلامی افغانستان کتم کر دی گئی تھی۔مگر اب طالبان بھی ایران سے اپنی حکومت کی مھیات کے خواہش مند ہیں۔ایرین کے ساتھ افغانستان ٥٧٠ میل لمبی مشترک سرحد ہے۔اس کو نفع بخش تجارت کے لیے استعمال کیا ۔ طالبان کی کابل کو فتح کرنے پر ایران میں موجود افغان مہاجریں نے نفرت کااظہار کیا۔پاکستان مردہ باد کے نعرے بھی لگائے گئے۔ایران ابھی شک وشبہ میں مبتلا ہے۔

اایران افغان تعلوقات کے علاوہ اس سے قبل ایران حکومت نے بڑی مہارت سے انتہا پسندسیاست شروع کی ۔ اس سیاسی مہارت کے اثرات سے امریکا شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے دور کے تعلوقات کی نشان دہی ہونا شروع ہو ئی۔اس وقت ایران کے ایک طاقت ور شخصیت سابق وزیر انٹلیجنس کے صدارتی مشیر علی یونس کی طرف سے بیان تھا کہ ا یران عظیم المشان سلطنت بن چکا ہے ۔عراق ہمارا ہے۔کھوئی ہوئی زمین واپس لے رہے ہیں۔ اسلام پسندوں (سنیوں)اور نئے عثمانیوں سے مقابلہ کریں گے۔

ترک ہمارے تاریخی مخالف ہیں۔ اس بیان سے ایران کی پالیسی کو دیکھیں اور رضا شاہ پہلوی دور کی پالیسیوں کا معائنہ کریں تو بات سمجھ آرہی ہے۔ رضا شاہ نے مسلمانوں سے ناطہ کاٹ کر چار ہزار سال پرانی تاریخ سے ناطہ جوڑنے کا جشن بھی منایا تھا۔وہ مسلمانوں سے ناطہ توڑ کے امریکا کا بہترین دوست بن گیا تھا اور ایشیاء میں امریکی ایجنٹ قرار پا یا تھا۔ یہ صرف اس لیے ہوا تھا کہ اُس نے امریکہ کی خواہشات کے تحت اپنی اسلامی شناخت کو ختم کیا تھا اور تاریخ کی پرانی غیر اسلامی ایرانی حکومت سے جوڑا تھا۔ امریکا نے ایسی ہی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے مصر کے حکمرانوں کا ناطہ بھی اسلام سے توڑ کر مصر کے تاریخی فرعونوں سے جوڑنے پر مصر کے حکمرانوں سے خوش رہا ۔تیس سال تک امریکی پٹھو حکمران مصر کی مظلوم رعایا پر حکمرانی کرتے رہے۔

یہی پالیسی عظیم مسلم ترکوں کے ساتھ بھی برتی گئی اور کمال اتاترک کو سامنے لایا گیا اور اُس نے پھر ترکی سے اسلام کو نکالا تھا۔ ترکی میںاسلام سے متعلق ایک ایک چیز ختم کی گئی تھی۔پاکستان میں بھی ڈکٹیٹر مشرف کو اِس بات کے لیے کھڑاکیا گیا تھا اور اُ س نے بیان دیا تھا کہ میرا آئیڈئیل کما ل اتاترک ہے۔ ڈکٹیٹر مشرف نے سب سے پہلے پاکستان اور روشن خیال پاکستان کی اصطلائیں بھی اسی لیے گھڑی تھیں۔ ڈکٹیٹر مشرف کے بعد صدر زرداری اور نواز شریف بھی اِس پر پاکستان میں بڑی مہارت سے عمل کر رہے ہیں۔ تعلیمی نصاب سے ایک ایک کرکے اسلامی دفعات ختم کی جارہی ہیں۔١ ٢ویںترمیم کے ذریعے بڑی مہارت سے صرف داڑھی والوں کو ہی دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ بات دور تک نکل گئی۔ بات ایران کی حکومت کے عزائم سے شروع ہوئی تھی۔

ایران کو امریکی گرفت سے نکال کررضا شاہ کے خلاف خمینی نے پیرس سے جلاوطنی کے دوران تحریک شروع کی اور رضا شاہ کے چار ہزار سالہ قومی بت کو پاش پاش کر کے شیعہ نہیں اسلامی انقلاب بر پاہ کیا تھا اور امریکا کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ خمینی نے نعرہ دیا تھا لا شرقیا۔ لاغربیا۔ ۔ ۔ اسلامیا۔ اسلامیا۔ اس انقلاب کو اسلام پرگہری نظر رکھنے والے مسلم دنیا کے اکابرین نے سنی شیعہ سوچ کو ایک طرف رکھتے ہوئے خوش آمدید کہاتھا ۔ اس لئے کہ اس انقلاب میں مسلمانوں کے ایک فرقہ شیعہ کی بات کرنے کے بجائے اسلام کے آفاقی سوچ کی بات کی گئی تھی۔ اسلامی انقلاب کی آفاقیت کی کچھ جڑیں اب بھی ایران کے معاشرے کے اندر موجود ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے حکمرانوں کی ذاتی خواہشات کہ وہ ہمیشہ صحیح پٹری سے اُتر جاتے ہیں۔ انہیں صرف اقتدار سے واسطہ ہوتا ہے۔

یہی کچھ ایران کے حکمرانوں نے بھی کیا۔ وہ شیعہ سنی اتحاد اور اسلام کے آفاقی پیغام کو پس پشت رکھ کر پھر اسلام کے ازلی دشمن امریکا کے ساتھ ا تحاد کر کے شام ،عراق، یمن اور مشرق وسطیٰ جہاں سنی اکثریت ہے پر بھی حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں اور امریکا کے ساتھ مل کر ان ملکوں کی شیعہ آبادی کو اُکسا رہے ہیں وہ اسطرح ایک بار پھر امریکہ کے چنگل میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔اور اسلام کی آفاقی سوچ سے ہٹ کر فرقہ واریت قومیت کی بند گلی والی سوچ کے پیچھے پڑھ گئے ہیں۔ امریکا نے ایرانی حکمرانوں کو رضا شاہ پہلوی والا سبق پھر سے پڑھانا شروع کر دیا اور وہ اپنا رشتہ اسلام سے توڑ کر اسلام سے پہلے والی پرانی ایرانی تاریخ کے پجاری بنتے جا رہے ہیں۔ اسی سوچ کا اظہار علی یونسی صاحب کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے۔

اگر اس سوچ کو موجودہ حالات سے پہلے کے حالات سے ملا کر جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے ایرانی حکمرانوں کو پہلے طالبان کے خلاف استعما ل کیا۔ طالبان اسلامی حکومت جس نے امریکا کے خلاف کوئی بھی دہشت گردی نہیں کی تھی، اُسامہ بن لادن کا بہانہ بنا کر افغانستان کا تورا بورہ بنا دیا تھا۔ شمالی افغانستان جس میں شیعہ ہزارہ لوگ رہتے ہیں اُن کو ایرانی حکمرانوں کی ایما پر طالبان کے خلاف کیا گیا۔ اور ایک وقت آیا کے طالبان اور ایران کی فوجیں ایک دوسرے کے خلاف سرحدوں پر پہنچ گئیں تھیں۔ ایران کی حمایت یافتہ افغان حکومت میں شیعہ افراد کی زیادہ تعداد داخل کر دی گئی ہے۔ عراق شام کے سرحدی علاقوں میں نئی قائم ہونے والی داش سنی حکومت سے امریکہ کے ساتھ مل کر ایران کی ملیشیا لڑ تی رہی۔جس پر ایران نے آگے بڑھ کر عراق کو اپنا حصہ قرار دے دیا ہے۔ یمن میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ شام میں بھی شیعہ اقلیت کی بشار حکومت کی مدد کی جا رہی ہے۔یہود و نصارا نے بڑی مہارت سے سنی شیعہ کو مقابل کھڑا کر دیا ہے۔

موجودہ تناظر میںہم اپنے کالموں میں اکثر اس بات کو زور دے کر لکھتے رہتے ہیں کہ مسلم دنیا کے جن ملکوں میں شیعہ آبادی زیادہ ہے اُس میں شیعیوں کو حکومت کا حق ہونا چاہیے اور جن ملکوں میں سنی آبادی زیادہ ہے اُن ملکوں میں سنیوں کو حکومت کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ رہا شیعہ سنی عقاہد تو اس کا فیصلہ آخرت پر چھوڑ دینا چاہے۔ اِس کا اللہ فیصلہ کر دے گا کہ کون حق پر ہے اور کون حق پر نہیں ہے۔ اسلامی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ یہود نصارا کی مسلمانوں کولڑانے والی پالیسیوں کو سمجھیں اوراس فلسفے پر عمل کر کے ہی مسلمان اپنے ازلی دشمنوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس لیے ایران حکومت کو علی یونسی کے بیان سے رجوع کرنا چاہیے۔ طالبان کی فتح کو ایک اسلامی پڑوسی ملک کی فتح جانتے ہوئے اس سے اپنے تعلقات بہتر کرنے چاہیے۔ پاکستان کے خلاف کویران میں افغان مہاجرین نے جونعرے لگائے ہیں ان سے روجع کرنا چاہیے تاکہ افغانستان ،پاکستان اور ارین اچھے پڑوسیوں کی زندگی کا آغاز کریں۔ ان تینوں ملکوں اور ترکی کو آگے بڑھ کر” اسلامی اتحادریاست ہائے مدینہ” کی تکمیل کرنا چاہیے ۔ مسلمان ملکوں کی اقوام متحدہ قائم کرنا چاہیے۔ ورنہ ایسی باتوں کا رد عمل سنی حلقے سے آئے گا جو مسلمانوں کے لیے نیک شکون نہیں ہو گا۔ جبکہ دشمن یہی چاہتا ہے۔ اس بات کو شاعر اسلام علامہ اقبال نے اس شعر میں بیان کیا ہے:۔

بتان رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
اللہ امتِ مسلمہ کا نگہبان ہو آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان