نیویارک (جیوڈیسک) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کی منظوری دیتے ہوئے سخت تعزیرات کو اس بنا پر تیسری مرتبہ موخر کر دیا ہے تا کہ تہران اپنے جوہری ہتھیاروں کی تحقیق کر ترک کر دے۔
جمعہ کو صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ تیسری اور آخری مرتبہ ان تعزیرات پر چھوٹ دے رہے ہیں تا کہ کانگریس اور یورپی اتحادی 120 روز میں ایران سے جوہری معاہدے میں بہتری لائیں بصورت دیگر امریکہ اس معاہدے سے علیحدہ ہو جائے گا۔
صدر کی طرف سے “معاہدے کے تباہ کن نقائص” کو دورے کرنے کی تجاویز میں ایران کو اپنی تمام جوہری تنصیبات تک بین الاقوامی معائنہ کاروں کو رسائی دینے کے ساتھ ساتھ تہران کی طرف سے یہ یقین دہانی حاصل کرنا بھی شامل ہیں کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔
وائٹ ہاوس کے مطابق ایران کے ساتھ کسی بھی نئے معاہدے میں اس کے بیلسٹک میزائلوں کا بھی احاطہ ہو گا۔
ٹرمپ کا بیان میں کہنا تھا کہ “ایسے معاہدے کی عدم موجودگی میں امریکہ تعزیرات میں نرمی نہیں کرے گا۔ اور اگر کسی موقع پر اسے یہ محسوس ہوا کہ ایسے معاہدے کی پاسداری نہیں ہو رہی تو میں فوراً اس معاہدے سے علیحدہ ہو جاوں گا۔”
ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف نے صدر ٹرمپ کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے “ایک ٹھوس معاہدے کو خراب کرنے کی کوشش قرار دیا۔”
مزید برآں امریکی محکمہ خزانہ نے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر ایران کے چند کاروباری شعبوں اور شخصیات پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان میں 14 ادارے اور شخصیات شامل ہیں۔
ان میں قابل ذکر ایران کی عدلیہ کے سربراہ صادق آملی لاریجانی ہیں اور امریکی محکمہ خزانہ کے بقول لاریجانی کا ادارہ ایرانی عوام کے خلاف “انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں” کا مبینہ مرتکب ہوا۔
پابندی کا نشانہ بننے والے دیگر اداروں میں پاسداران انقلاب کا سائبر یونٹ بھی شامل ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق عوام کی سوشل میڈیا تک رسائی کو محدود بنا رہا ہے۔