تہران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران نے اپنی سرزمین پر امریکا اور اسرائیل کے انٹیلی جنس اداروں کی کارروائی میں کالعدم جنگجو گروپ القاعدہ کے دوسرے اہم ترین کمانڈر کی ہلاکت سے متعلق خبروں کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے القاعدہ کے ایک رہنما ابو محمد المصری کے “مبینہ طور پر قتل” اور ایران میں القاعدہ ارکان کی موجودگی کے الزام کو رد کر دیا ہے۔
خطیب زادہ نے واشنگٹن اور تل ابیب پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ وقتا فوقتا ان کے ملک کو جھوٹ کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان ملکوں میں ایران کے خلاف میڈیا میں من گھڑت کہانیاں شائع کی جاتی ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
یہ بیانات “نیو یارک ٹائمز” اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے بعد سامنے آئی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میں چار امریکی انٹیلی جنس عہدیداروں کے حوالے سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اسرائیل نے ایرانی دارالحکومت تہران کی ایک گلی میں تین ماہ قبل واشنگٹن کی درخواست پر “القاعدہ” تنظیم کے ایک رہ نما ابو محمد المصری قتل کیا تھا۔
امریکی انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ المصری کو اس کی بیٹی مریم جو حمزہ بن لادن کی بیوہ ہے سمیت ہلاک کیا گیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ حملہ امریکا کے کہنے پر اسرائیلیوں نے انجام دیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ ایرانی سرکاری میڈیا اور ویب سائٹوں پر اور پاسداران انقلاب کے پاس موجود اکاؤنٹس نے سوشل میڈیا پر 7 اگست کو تہران میں دو افراد کے قتل کی خبر شائع کی تھی لیکن انہوں نے ان کی شناخت لبنانی تاریخ کے پروفیسر حبیب داؤد اور ان کی 27 سالہ بیٹی مریم کے نام سے کی ہے۔
تاہم دی نیویارک ٹائمز کی فالو اپ رپورٹ میں انکشاف کیا کہ حقیقت میں حبیب داؤد نام کا کوئی شخص نہیں تھا۔ اس نے ایک امریکی انٹیلی جنس اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ وہ تخلص تھا جو ایرانی عہدیداروں نے ابو محمد المصری کو دیا تھا۔ اس کے تاریخ کے استاد کے طور پر تعارف کرانے کا مقصد حقائق پر پردہ ڈلنا ہے۔
کسی نے بھی عوامی طور پر مصری کے قتل کا اعتراف نہیں کیا ہے۔ المصری افریقہ میں امریکی سفارت خانوں پر 1998 کے حملوں کے ماسٹر مائنڈز میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔
اس سرکاری تردید کے باوجود القاعدہ کے قیام سے ہی سے ایران اور القاعدہ میں گٹھ جوڑ رہا ہے اور اس کی ایک طویل تاریخ رہی ہے کیونکہ سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈروں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے 1990 کی دہائی میں بوسنیا میں القاعدہ کی معاونت کے لیے ایرانی ہلال احمر تنظیم کا استعمال کیا تھا۔
اپریل 2019 میں پاسداران انقلاب کے سابق رہ نما اور “انصار حزب اللہ” تنظیم کے رکن سعید قاسمی نے انکشاف کیا کہ پاسداران انقلاب کے عناصر 1990 کی دہائی میں بوسنیا کی جنگ میں حصہ لینے گئے تھے اور وہیں ایرانی ریڈ کریسنٹ کیڈر کے تحت القاعدہ کے ممبروں کو تربیت دینے کے لیے کام کرتے رہے۔
اگرچہ پاسداران انقلاب کے ترجمان نے ان بیانات کی صداقت سے انکار کیا لیکن پاسداران کے رہ نماؤں میں سے ایک حسین اللہ کرم جو اس وقت “انصار حزب اللہ” تنظیم کی سربراہی کررہے ہیں سعید قاسمی کے بیان کی تائید کی ہے۔
سنہ 2018 میں نیویارک کی ایک امریکی عدالت نے 11 ستمبر2001 کے امریکا میں ہونے والے حملوں میں ملوث عناصر کو اپنی سرزمین سے گذرنے اور ان کی مدد کرنے کے الزام میں تہران کو 10 ارب 70 کروڑ ڈالر ہرجانے کا نوٹس بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا۔
لکسمبرگ میں یورپی عدالت نے بھی ستمبر میں ہونے والے حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کے کے لیے وسطی بینک آف ایران کے فنڈز سے ایک ارب 600 کروڑ ڈالر ضبط کرنے کا فیصلہ جاری کیا۔
اس کے علاوہ ایرانی عدلیہ کے معاون ، محمد جواد لاریجانی نے 30 مئی 2018 کو ایرانی ٹیلی ویژن کو ایک خصوصی انٹرویو کے دوران غیرمعمولی بیان میں اعتراف کیا کہ ایران نے 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں ہونے والے حملے میں القاعدہ کے سرگرم کارکنوں کو گزرنے میں مدد فراہم کی تھی۔
امریکی فوج نے 2011 میں پاکستان کے ایبٹ آباد شہر میں القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کے ٹھکانے سے دستاویزات حاصل کی تھیں اور نومبر 2017 میں امریکی سنٹرل انٹلی جنس ایجنسی کے ذریعہ انہیں شائع کیاگیا تھا۔ ان دستاویزات میں القاعدہ کے ساتھ ایران کے تعلقات کی تفصیل بھی موجود ہے۔
بن لادن کے ٹھکانے سے حاصل کردہ 470،000 دستاویزات کے اس بڑے ذخیرے سے 19 صفحات ایرانی حکومت سے القاعدہ کے قابل ذکر روابط کے لیے وقف ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس آف ڈیموکریسی کے محققین تھامس جوسلین اور بل راجیو کی تحقیقات کے مطابق ایک دستاویز میں یہ بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ القاعدہ کے ایک ممتاز رکن نے اپنے پیغام میں تصدیق کی ہے کہ خطے میں امریکا کے مفادات پر حملہ کرنے کے لیے ایران القاعدہ کو اسلحہ،رقوم، تربیت کے لیے حزب اللہ کے ٹریننگ کیمپ اور ہرچیز انہیں فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
دستاویز کے مطابق ایرانی انٹلی جنس سروسز نے بعض معاملات میں القاعدہ کے کارندوں کو آپریشن انجام دینے کے لیے ویزا جاری کرنے میں سہولت فراہم کی تھی اور اسی دوران انہوں نے دوسرے گروہوں کو بھی پناہ دی تھی۔
ایک اور دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ایرانی انٹیلی جنس سروسز نے القاعدہ کے کارکنوں کو ٹریول ویزا اور سہولیات فراہم کرنے اور القاعدہ کے دیگر ممبروں کی رہائش پر اتفاق کیا ہے۔ 11 ستمبر کو ہونے والے دہشت گرد حملوں سے قبل اس معاہدے پر القاعدہ کے ایک با اثر رکن ابو حفص الموریطانی نے ایران سے بات چیت کی تھی۔
جنوری 2018 میں مغربی رپورٹس کے ذریعہ یہ اطلاع ملی تھی کہ ایران نے داعش تنظیم کے رہ نماؤں کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک اور تاریخی تعلقات استعمال کرکے القاعدہ کی بحالی کے لیے شام میں داعش کی باقیات کوجمع کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔
“سنڈے ٹائمز” میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں مصنفین ایڈرین لیوی اور کیتی اسکاٹ کلارک نے کہا تھا کہ ایران کی مدد سے القاعدہ نے خود کو اتنا فعال کردیا تھا کہ وہ دسیوں ہزار کارکنوں کو اکٹھا کر سکتی ہے۔