اسرائیلی (جیوڈیسک) ایران کے معاشی بحران اور لیبیا میں جاری شورش کو الگ الگ نہیں ایک ساتھ دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ واشنگٹن کی تہران کے خلاف جاری معاشی جنگ میں لیبیا بھی اہم عنصر ہے۔
اسرائیلی ویب سائیٹ’ٹیک ڈیپکا’ کے مطابق ایران اور لیبیا کے بحرانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایران میں گذشتہ ہفتے فوجی سربراہ جنرل محمد باقری نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں آبنائے ہرمز بند کرنےمیں زیادہ دلچسپی نہیں مگر ہمارے تیل کو اس راستے سے نہ گذرنے دیا گیا تو ہم یہ گذرگاہ بند کر دیں گے اور کسی دوسرے ملک کے تیل بردار جہاز بھی نہیں جانے دیں گے۔
محمد باقری کی دھمکی ایک ہفتے میں ایرانی لیڈروں کی اس طرح کی دوسری دھمکی ہے۔ اس سے قبل ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای،صدر حسن روحانی اور وزیرخارجہ محمد جواد ظریف بھی آبنائےہرمز بند کرنے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی مقرب ویب سائیٹ’ٹیک ڈیپکا’ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے آٹھ ممالک جن میں چین، جنوبی کوریا، بھارت اور جاپان جیسے بڑے ممالک شامل ہیں کو ایران سے تیل کی خریداری سےمحروم کرنے کا اعلان اہمیت کا حامل ہے۔ اس اعلان نے ایرانی قیادت کو یہ باور کرایا ہےکہ امریکا سنہ صرف ایرانی تیل کی برآمدات پرپابندیاں عاید کررہا ہے بلکہ وہ ایرانی معیشت کے گرد گھیرا مزید تنگ کررہا ہے۔
عبرانی ویب سائیٹ کو ملنے والی معلومات کےمطابق ٹرمپ انتظامیہ ایرانی تیل کی برآمدات روکنے کے لیے مزید سخت اقدامات کرے گی۔
اس حوالے سے امریکا نے ایران کے خلاف اقدامات کے لیے دو مراحل پرکا منصوبہ تیار کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں ایرانی تیل کی برآمدات کو جو اس وقت 1۔1 ملین بیرل یومیہ ہے کو کم کرکے نصف تک لایا جائے۔
دوسرے اور آخری مرحلے میں ایرانی تیل کی برآمدات مزید کم کرکے اسے صفر تک پہنچا دیاجائے مگر یہ سب کچھ آسانی کے ساتھ ممکن نہیں۔ اگر ایسا کرنے سےامریکا کوکچھ فائدہ ہوگا تو اس کے ساتھ امریکا کے روایتی حریف روس کو بھی فایدہ پہنچے گا۔
امریکی پابندیوں کے جواب میں ایران فوجی کارروائی پر مجبور ہوسکتا ہے۔اسی خطرےکے پیش نظر امریکا نےسینٹرل کمانڈ کےسربراہ جنرل کینتھ میکنزی کو ایران کی طرف سے کسی بھی عسکری جارحیت کا جواب دینےکے لیے مشرق وسطیٰمیں بھیج دیا ہے۔
امریکا کو ایران کی طرف سے دوسرا چیلنج تیل کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں پیش آسکتا ہے۔ اگر ایران بحرالاحمر کی باب المندب اورآبنائے ہرمز بندرگاہیں بند کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں عالمی منڈی میںتیل کی قیمت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگر تیل کی قیمت میں فی بیرل ایک ڈالر بھی بڑھتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکا کے روایتی حریف روس کے خزانے میں 4 ارب ڈالر کااضافہ ہوگیا ہے۔
ایسے میں امریکا کو ان ذرائع تک پہنچنا ہوگا جو ایرانی تیل کے بجائے عالمی منڈی سے تیل کی خریداری کریں۔ اس طرح ایران کو عالمی منڈی تک رسائی سے روکا اور اس کی تیل کی برآمدات روکی جا سکیں گی۔ تیل کی قیمتوں میں اتارو چڑھائو میں عرب ممالک جن میں سعودی عرب اور امارات شامل ہیں کے ساتھ ساتھ روس بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ سعودی عرب اور امارات کی طرف سےایرانی تیل کی بندش کے بعد پیدا ہونے والی تیل کی کمی پوری کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
امریکا کی کوشش ہے کہ وہ لیبیا کے تیل کو بھی عالمی منڈی میں لانے کے لیے دوسرے ممالک کو اپنے ساتھ ملا کر آگے بڑھے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے اب تک لیبیا میںجاری خانہ جنگی میں مداخلت نہیں کی۔ جہاں ایک طرف روس، مصر، امارات اور فرانس کے حمایت یافتہ جنرل خلیفہ حفتر کی فوج اور دوسری طرف جنوب میں اقوام متحدہ اور اٹلی کی حمایت یافتہ قومی وفاق حکومت کے درمیان جنگ جاری ہے۔
امریکی حکومت کو توقع ہےکہ جنرل خلیفہ حفتر نہ صرف ملک کے مشرقی علاقے میں مرکزی آئل فیلڈ کا کنٹرول سنبھالے گی بلکہ وہ بحر متوسط کےساحل پر راس لانوف اور السدر کی تیل کی تنصیبات بھی اپنے قبضےمیںلے سکتی ہے۔ گذشتہ ایک ہفتے کےدوران تیل کی ان دونوں تنصیبات پر قبضے کے لیے جنگ میں مزید شدت آئی ہے۔ اسی حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وسط اپریل کو لیبی فوج کے سربراہ جنرل خلیفہ حفتر سے غیرمسبوق بات چیت کی تھی۔