ایران (جیوڈیسک) ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ امریکیوں کو اپنے اختیار کردہ ہر طریق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انھوں نے اپنی قوم کا مورال بلند کرنے کے لیے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ایران امریکی پابندیوں کے مقابلے میں پختہ عزم کے ساتھ کھڑا ہے۔
ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی مہر کے مطابق صدرحسن روحانی اتوار کو ایران کے شمالی صوبے خراسان میں پہنچے ہیں جہاں وہ مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے والے تھے۔
انھوں نے کہا:’’ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی اور فوجی قوت نے گذشتہ چودہ ماہ سے ایران کے عوام کے خلاف سخت ترین اقتصادی پابندیاں عاید کررکھی ہیں لیکن ان چودہ مہینوں کے دوران میں ایرانی عوام عزم واستقلال کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور امریکیوں کو اپنے اختیار کردہ ہر طریق سے شکست ہی ہوئی ہے‘‘۔
صدر روحانی نے کہا کہ ’’امریکا کی خطے میں مذمت کی جارہی ہے اور وہ شام اور یمن میں شکست سے دوچار ہوا ہے‘‘۔انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران کے غیرملکی قرضے میں 2017ء کے بعد قریباً پچیس فی صد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آٹھ مئی 2018ء کو ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان طے شدہ جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اور ایران کے خلاف دوبارہ سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔انھوں نے ایران پر دہشت گردوں اور اپنے آلہ کار غیرملکی گروپوں کی حمایت کا الزام عاید کیا تھا۔ان پابندیوں میں ایران کی تیل کی برآمدات ، جہاز رانی اور بنک کاری کے شعبوں کو ہدف بنایا گیا تھا۔
امریکا نے 24 جون کو ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای اور سپاہِ پاسداران انقلاب کے آٹھ کمانڈروں پربھی پابندیاں عاید کردی تھیں۔اس نے یہ اقدام خلیج میں اپنا ایک ڈرون مارگرانے کے واقعے کے ردعمل میں کیا تھا۔ ایرانی پاسداران نے 20 جون کا امریکا کا یہ جاسوس طیارہ مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
امریکا کے خصوصی ایلچی برائے ایران برائن ہُک نے 10 جولائی کو العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران پر عاید کردہ پابندیوں سے رجیم کو سالانہ پچاس ارب ڈالر کی آمدن کا نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایران کے خلاف دباؤ برقرار رکھا جائے گا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کے مطابق 2018ء میں ایران کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح 3.9 فی صد رہی تھی۔رواں مالی سال کے دوران میں اس میں چھے فی صد کمی کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔