تہران (جیوڈیسک) ایران نے امریکی الزامات مسترد کر دیے ہیں کہ وہ آبنائے ہرمز میں تیل کے ٹینکرز پر ہوئے حملوں میں ملوث ہے۔ جمعے کے دن تہران نے کہا کہ دراصل وہ اس اہم آبی راستے کی سکیورٹی کا ذمہ دار ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے حوالے سے جمعے کے دن بتایا کہ تہران حکومت آبنائے ہرمز میں سکيورٹی کی ذمہ دار ہے اور تیل کی ترسیل کے اس اہم آبی راستے میں تیل کے ٹینکرز پر ہوئے حملوں میں ایران ملوث نہیں ہے۔
وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق امریکا کی طرف سے عائد کیے جانے والے یہ الزامات ‘بے بنیاد‘ ہیں اور اس طرح وہ ‘سفارت کاری کو سبوتاژ‘ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے تیل کے ٹینکرز پر ہوئے ان نئے حملوں کے تناظر میں امریکی الزامات کو ‘خطرناک‘ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف امریکی محکمہ دفاع نے ایک ایسی ویڈیو جاری کر دی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایران کے پاسدران انقلاب کے فوجی اس آئل ٹینکرز کے قریب سے ایسا بارودی مواد مواد ہٹانے کی کوشش میں ہیں، جو پھٹا نہیں تھا۔ امریکی وزیر دفاع مائیک پومپیو نے دہرایا ہے کہ اس نئے حملے میں ایران کے ملوث ہونے کا ثبوت مل گیا ہے۔
گزشتہ برس مئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عالمی جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد سے تہران اور واشنگٹن کی حکومتوں کے مابین کشیدگی میں بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ٹرمپ کے مطابق سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی یہ تاریخی ڈیل امریکا کے مفاد میں نہیں ہے۔ تاہم یورپی ممالک اس ڈیل کو بچانے کی کوششوں میں ہیں۔ امریکا نے اس ڈیل سے الگ ہوتے ہوئے ایران پر پابندیاں بحال کر دی ہیں اور ساتھ ہی ایسے ممالک کو بھی پابندیوں سے خبردار کیا ہے، جو ابھی تک ایران کے ساتھ تیل کی تجارت کر رہے ہیں۔
ادھر ایران کا کہنا ہے کہ اگر امریکی پابندیوں کے باعث وہ تیل کی فروخت نہیں کر سکے گا تو جوابی طور پر وہ آبنائے ہرمز کو بلاک کر دے گا۔ آبنائے ہرمز خلیجی ریاستوں سے تیل برآمد کرنے کا ایک اہم آبی راستہ ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سن 1987 اور 88 میں بھی ایران غیر ملکی آئل ٹینکرز کے ساتھ بارودی مواد نصب کرنے کا مرتکب ہوا تھا۔
دوسری طرف چین کے صدر شی جنگ پنگ نے کہا ہے کہ اُن کا ملک ایران کے ساتھ باہمی تعلقات کو تبدیل ہوتے حالات میں بھی مستحکم رکھے گا۔ چینی صدر کا بیان وسطی ایشیائی ریاست کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک میں ایرانی ہم منصب حسن روحانی کے ساتھ ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔
دونوں صدور بشکیک میں شنگھائی کوآپریشن تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شریک تھے۔ چینی صدر کا بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکا نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ اُس نے خلیج عمان میں دو تیل ٹینکروں پر حملہ کیا ہے۔ اس حملے کے بعد عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں فوری اضافہ دیکھا گیا تھا۔