تحریر: محمد اشفاق راجا چین نے ایران کو پیشکش کی ہے کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے میں شامل ہو جائے، تو ایرانی انرجی(تیل) اِس راستے سے چین پہنچ سکتی ہے، اگر ایران سی پیک کا حصہ بنتا ہے تو یہ چین اور ایران کے درمیان تعاون کے لئے اچھی صورتِ حال ہو گی۔ منصوبے میں شمولیت ایران اور چین دونوں کے لئے مفید ہو گی، اسلام آباد میں متعین چینی سفیر سن وی ڈونگ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ چین، ایران کے سی پیک کا حصہ بننے کا منتظر ہے۔اْن کا کہنا تھا کہ ایران بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں ایک اہم مْلک ثابت ہو سکتا ہے، ہم خطے کے تمام ممالک کے درمیان تعاون کے مواقع بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت 16بڑے منصوبے زیر تکمیل ہیں اور اِن پر چین پہلے ہی13ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری سے پاکستان میں روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوں گے، سی پیک سے پاکستانی عوام کو بہت فائدہ ہو گا۔
چین نے اپنے سفیر کے ذریعے ایران کو پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ بننے کی جو باضابطہ دعوت دی ہے ایران کی اِس میں شمولیت کی امید اِس لئے کی جا سکتی ہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی اور اسلام آباد میں مقیم ایرانی سفیر مہدی ہْنر دوست اس سے پہلے اِس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ ایران بھی علاقائی خوشحالی کے اِس عظیم الشان منصوبے کا حصہ بننا چاہتاہے۔گزشتہ ماہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ایرانی صدر حسن روحانی کی جو ملاقات ہوئی تھی اس میں بھی سی پیک کے منصوبے پر بات ہوئی تھی اور ایرانی صدر نے اِس میں خصوصی دلچسپی ظاہر کی تھی، اب چینی سفیر کی پیشکش سے بات اگر آگے بڑھتی ہے، تو ایران اِس منصوبے کا حصہ ہوسکتا ہے۔ چینی صدر نے ”ون بیلٹ ون روڈ” کا جو تصور پیش کیا ہے اْسے اگر پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو چینی قیادت کا یہ وڑن واضح ہو جاتا ہے کہ اس کے تحت چین پورے خطے کی خوشحالی کا منصوبہ بنا رہا ہے، اس سے نہ صرف چین اور پاکستان مستفید ہوں گے،بلکہ ایران جب اس عظیم منصوبے کا حصہ بن جائے گا تو ایرانی تیل بھی اِس راستے سے چین پہنچ سکے گا۔
Gawadar Port
گوادر سے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار زیادہ فاصلے پر نہیں ہے اور اگر اِن دونوں بندرگاہوں کو ریل کے راستے سے آپس میں ملا دیا جاتا ہے، تو سی پیک ایران تک وسیع ہو جاتی ہے۔ گوادر بندرگاہ منصوبے کے مطابق مکمل ہو جانے کے بعد یہ نہ صرف خطے، بلکہ دْنیا کی بڑی بندرگاہوں میں شمار ہو گی اس کے مقابلے میں چاہ بہار ایک ننھی مْنی سی بندرگاہ نظر آئے گی، جس میں صرف دس برتھیں ہوں گی، یہ ایران کے مفاد میں ہے کہ وہ سی پیک کا حصہ بن کر اپنی اس بندرگاہ کو بھی توسیع دے، دونوں بندرگاہوں کے درمیان رابطے کی صورت میں دونوں کی افادیت دوچند ہو گی تاہم اِس سلسلے میں یہ بات پیشِ نظر رکھنا ہو گی کہ بھارت اِس سلسلے میں کوئی شرارت نہ کرے، چاہ بہار میں بھارتی سرمایہ کاری کا مقصد بظاہر پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنا بھی ہو سکتا ہے،کیونکہ مودی سی پیک کے منصوبے سے خوش نہیں ہیں اور انہوں نے نہ صرف اِس پر لایعنی اعتراضات اْٹھائے ہیں،بلکہ ایک سے زیادہ مرتبہ چینی صدر شی چن پنگ کے ساتھ اِس مسئلے پر بات چیت کی ہے،لیکن چینی صدر نے ہر بار اْنہیں باور کرایا کہ وہ اِس منصوبے کو صرف پاک چین منصوبہ نہ سمجھیں،بلکہ اسے وسیع تر تناظر میں دیکھیں۔
ایران کو چین نے جو پیشکش کی ہے اْسے بھی خطے کے پورے سیناریو کو پیشِ نظر رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چند روز قبل افغان سفیر ڈاکٹر عمر زخیل وال نے بھی کہا تھا کہ افغانستان کو بھی اِس منصوبے میں دلچسپی ہے، اس سے یہ مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان کو شریک کر کے سی پیک کا منصوبہ آسانی کے ساتھ وسط ایشیائی ممالک تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ راہداری صحیح معنوں میں خطے کی خوشحالی کی راہداری بن کر اْبھرے گی اور علاقائی تعاون کا ایک نیا تصورحقیقت بن کر سامنے آئے گا۔
اسے بد قسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز میں بعض عناصر نے بھارت کی سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے اِس منصوبے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی اور مغربی روٹ کے نام پر اسے متنازعہ بنانے پر اْتر آئے۔ یہاں تک کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ اور صوبے کے بعض دیگرسیاست دان تو دھمکیوں پربھی اْتر آئے،حالانکہ چینی سفیر بار بار واضح کر چکے ہیں کہ مغربی روٹ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کا حصہ ہے اور اسے محدود نظر سے دیکھنے کی بجائے پورے خطے، بلکہ بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے، چین اِس پورے علاقے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، بھارت اوربنگلہ دیش میں چین کی طرف سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ افغانستان کے حالات کی بہتری کے بعد چین وہاں معدنیات کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔ چین نے اپنے کئی ہمسایہ ممالک میں بھی سرمایہ کاری کی ہے اور دْنیا سے غربت دور کرنے کے پروگرام کا وڑن چینی قیادت کے پیش نظر ہے۔ اس روٹ کے بعد دوسرے ممالک کی سرمایہ کاری کا فلڈ گیٹ بھی کھلنے کی امید ہے۔ لہٰذا پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کو اِس منصوبے کو تنگ نظری اورسیاسی مفادات کا شکار کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے اور عالمگیریت کے حامل اِس منصوبے سے فائدہ اْٹھا کر کروڑوں لوگوں کی خوشحالی کا خواب حقیقت میں تبدیل ہوسکے گا۔