ایرانی سفارت خانے سے بروز منگل ایک خاتون کا فون آیا ۔ آپ میر افسر امان بول رہے ہیں ۔ میں نے کہا جی ہاں۔۔۔ کہا کہ ایران کے سفیر آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کوئی خاص بات ہے کہ مجھ جیسے کمزور شخص سے ایرانی سفیر ملاقات کرنا چاہتے ہیں؟ خاتون نے کہا اس لیے کہ آپ ایک کالم نگار ہیں اور ہم کے کالم، فلاں فلاں اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں۔ یہ ملاقات اسی سلسلے کی ہے۔کیا آپ ایرانی سفارت خانہ آنا پسند کریں گے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں میں حاضر ہو جائوں گا۔ خاتون نے نیشنل آئڈنٹی کارڈ کی فوٹو اور گاڑی کا رجسٹریشن نمبر واٹس ایپ کرنے کا کہا ۔انہیں پولیس سیکورٹی کلیئر کرانی ہوتی ہے۔ میں نے نیشنل آئیڈنٹی کارڈ کی فوٹو خاتون کو واٹس ایپ کر دی۔ جمعرات کے دن ساڑے تین بجے کا وقت طے ہوا۔ میں ساڑے تین بجے کریم سے سیرینا ہوٹل اسلام آباد تک پہنچا۔ وہاں سے ایرانی سفارت خانے کی گاڑی مجھے ایرانی میں سفارت خانے لے گئی۔ میں مہمان خانے میں ملاقات کا انتظار کرنے لگا۔ مہمان خانے میں سامنے کی دیوار پر ایک طرف ایرانی انقلاب کے بانی حضرت آیت اللہ موسوی خمینی کی اور دوسری طرف ایران کے موجودہ صدر اور سپریم کمانڈر آیت اللہ حسن روحانی کی تصویر آویزاں ہے۔
بیٹھے بیٹھے میرے ذہن میں ایران کے حکمران محمدرضا شاہ پہلوی کا ایران سامنے آیا۔ رضا شاہ پہلوی ایشیا میں امریکا کے پولیس مین کا کردار ادا کرتاتھا۔ پورا ایرن مغربی تہذب میں غرق تھا۔ اپنے مذہب اسلام اور کلچر پر فخر کرنے کے بجائے رضا شاہ پہلوی اپنے آپ کو چارہزارا سالہ قدیم تہذب سے جوڑتا تھا۔ قدیم تہذیب کا جشن منانے کے لیے ساری دنیا کے حکمرانوں کو ایران بلایا۔ ایک عظیم المشان پروگرام منعقد کیا۔ عیش و عشرت کے سارے سامان مہیا کر کے دنیا کے حکمرانوں سے داد وصول کی۔ مگر مکافات عمل شروع تھا۔ اُس کے دماغ کے کسی حصے میں یہ نہیں آرہا تھا کہ ایک مرد مومن خمینی کو اُس کا یہ کردارہر گز پسند نہیں تھا۔ خمینی نے رضا شاہ پہلوی کو اپنی اصل، اسلام کی طرف آنے کی دعوت دی ۔ مگر اس پر شیطان حاوی ہو گیا تھا۔ اُس نے خمینی اور اس کار کنوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ قبرستان شہیدوں کی قبروں سے بھر دیے۔ خمینی پراپنے ملک ایران کی زمین تنگ کر دی۔ اللہ نے خمینی کو فرانس کی زمین مہیا کر دی۔ وہ وہاں سے تبدیلی کی کوششیں کرتا رہا۔ اُس زمانے میں کیسٹوں کے ذریعے خمینیاسلام کا پیغام ملک کے کونے کونے اور باہر دنیا تک پہنچاتا رہا۔ سارا ایران خمینیکی اسلام کی آواز پر اُٹھ کھڑا ہوا۔ بلا آخررضا شاہ پہلوی ایران سے فرار ہو گیا۔
یکم فروری ١٩٧٩ ء کو ایئر فرانس کے طیارے میں خمینی فاتح کی شکل میں ایران کی سرزمین پر اُترا۔ پورا ایران اس کے استقبال کے لیے اُمنڈ آیا۔خمینی نے کسی محل میں جانے کے بجائے شہیدوں کے قبرستان کے سامنے ایک عظیم ا لمشان تاریخی مجمع سے خطاب کیا ۔ شہیدوں کی قربانیوں اور اُن کے لیے اگلے جہاں میں درجات کی دعائیں کیں۔ عوام کو آئندہ کا لائحہ عمل دیا۔ ایرانی قوم کو اسلام کے راستے پر ڈال دیا۔ایران میں اسلامی کلچر ہر سو نظر آنے لگا۔ لا شرکیہ لاغربیہ۔ ۔۔ اسلامیہ اسلامیہ کے نعرے ایران میں گھوجنے لگے۔ انقلاب کی یاد میں منعقد پریڈ میں پاسداران انقلاب امریکا کے جھنڈے اپنے پیروں تلے ردندتے رہے۔ آج بھی مرگ بر امریکا اور مرگ بر اسرائیل ایران کے در دیوار پر نظر آتے ہیں۔ امریکا نے ایران کی پوری پارلیمنٹ کو خود کش حملہ سے اُڑا دیا۔ رد عمل میںایرانیوں نے امریکا کے سفارت کاروں کو یرغمال بنایا۔ امریکا نے انہیں چھوڑانے کے لیے ہیلی کاپٹر مہم جوئی کی۔ اللہ نے غیبی مدد سے ان کے ہیلی کاپٹرز کو فضاء میں ہی کریش کر دیا۔ امریکا آج تک ایران کے پیچھے پڑا ہوا ہے مگر ایران ڈٹاہوا ہے۔۔۔ ٍ میں ان ہی خیالوں میں ہی ڈوبا ہوا تھا کہ مہمان خانے کے مین دروازے سے ایک خاتون اسلامی پردے میں ملبوس بارعب طریقے سے اندر مہمان خانے میں تشریف لائیں۔مجھے مخاطب کر کے اسلام علیکم کہا۔ میں نے جواب میں والیکم السلام ورحمتہ اللہ کہا اور کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔ بات چیت شروع ہوئی۔ میرے معلوم کرنے پر خاتون نے اپنا نام ”ڈاکٹر حمانہ کریمی کیا” صاحبہ اور ذمہ داری ہیڈ آف پریس سیکشن بتایا۔ بتایا کہ وہ الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا، اخبارات کے ایڈیٹرز، صحافی اور کالم نگارحضرات سے رابطہ کی ذمہ داری ادا کرتی ہیں۔ پھر ڈاکٹر صاحبہ نے پاکستانی میڈیا کے متعلق بات کی۔میں نے اپنا تعارف کالم نگار کے حوالے سے کرایا۔ ڈکٹر صاحبہ نے معلوم کیا کہ کب سے کالم نگاری کر رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ تقریباً پندرہ سال ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا میں اُردو سیکھ رہی ہوں ۔
میری اُردو کمزور ہے لہٰذا انگریزی زبان میں بات کروں گی ۔ میں نے عرض کیا کہ میری بھی انگلش کمزور ہے۔ خیر انگریزی اور اُردو دونوں میں گفتگو ہوتی رہی۔ ایران کے انقلاب پر بات ہوئی۔ امریکا اسرائیل اور مغرب کی اسلام دشمنی پر بات ہوئی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ عیسائی اوریہودی غلط باتیں ایران سے منسوب کر کے مسلمانوں بدگمانیاں پیدا کرتے ہیں۔ جبکہ ایران اتحاد بین المسلین کو پسند کرتا ہے۔میں نے جواباً کہا اے کاش! کہ مسلمانوںکی کوئی مشترکہ نیوز ایجنسی ہوتی جو مسلمانوں تک صحیح خبریں پہنچاتی۔ ساری دنیا کا دجالی میڈیا یہودیوں اور عیسائیوں کے قبضہ میں ہے۔ وہ مسلمانوں کو لڑاتے رہتے ہیں۔
نائین الیون کے بعد مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند ثابت کرنے کی مہم شروع کی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس کی تاہید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل پڑوسی اسلامی ملکوں پر قبضے کے بعد پاکستان تک بڑھناچاہتا ہے۔ میں نے کہا کہ اسرائیل امریکا اور بھارت دنیا میں کہیں بھی اسلامی سیاسی حکومتیں نہیں دیکھنا چاہتا ۔ اسرائیل کی پارلیمنٹ کے دیوار پر کندہ ہے کہ” اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فراط تک ہیں” ۔ اسلامی لیڈر شپ پر بات ہوئی تو میں نے کہا کہ مسلمانوں کے حقیقی لیڈر، اقبال،قائد اعظم ، سیدمودودی اور خمینیتھے۔یہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی بات کرتے تھے۔ اب بھی ان کے فرمودات پر عمل کر کے مسلمان آگے بڑھ سکتے ہیں۔ میں اقبال کا ایران کے متعلق مشہور شہر پڑھنے لگا، تو ڈاکٹر صاحبہ نے اسے مکمل کیا:۔
طہران ہو گر مشرق کا جنیوا۔ شاید کرئہ عرض کی تقدیر بدل جائے
فارسی زبان پر بات ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ مسلمانوں کے دینی اور تاریخی موادعربی اور فارسی میں ہے۔ لہٰذا ہمیں اُردو کے ساتھ فارسی اور عربی زبان کو بھی سیکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ اسلام آباد میںایرانی سفارت کا کلچر سیکشن فارسی کی کلاسیں منعقد کراتا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ اسرائیل نے ہمارے قبلہ اوّل پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ فلسطین میں صرف حماس اس کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے۔ امت مسلمہ نے مل کر یہودیوں سے قبلہ اوّل آزاد کرنا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ نے معلوم کیا۔ آپ نے کبھی ایران دیکھا ہے۔ میں عرض کیا نہیں!دیکھنے کا شوق ہے۔ گفتگو کے آخر میں ڈاکٹر صاحبہ نے ایرانی سفیر سید محمد علی حسینی صاحب کی طرف سے دستخط اور فریم شدہ سرٹیفیکیٹ پیش کیا، جسے میں نے شکریہ کے ساتھ وصول کیا۔اس سرٹیفیکیٹ میںالقدس کی آزادی اور فلسطینیوں پر یہودیوں کے مظالم کو میری تحریری جہاد پر تعریفی کلمات لکھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر حمانہ کریمی کیا صاحبہ سے رخصت ہوتے ہوئے میں نے اسلامی پردے کی تعریف کی اور انہیں اسلامی سسٹر کہہ کر خیر آباد کہا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے جواباً کہا یہ میرے اللہ کا حکم ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ مجھے ڈراپ کرنے کے لیے اپنی گاڑی پیش کی۔ باہر نکل کر اورہاتھ ہلا کر مجھے الوداع کیا۔
صاحبو! ہم تو اتحاد کے داہی ہیں ۔ اپنی حد تک صدا لگاتے رہے ہیں۔ آئندہ بھی لگاتے ر ہیں گے۔ اس دور میں اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت ہے۔ جب مسلمانوں نے اپنی پہچان اسلام سے جوڑی رکھی۔ انہوں نے نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر تک حکمرانی کی۔جب ترکی میں ایک قوم پرست اتا ترک پیدا ہوا۔ اس نے ترکی میں اسلامی پہچان سے ہٹ کر ترک قوم پرستی کی بات کی۔ رد عمل میں عربوں نے بھی عربی قوم پرستی شروع کی۔ پھر ترکی کو تین براعظموں پر حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ بقول شاعر اسلام علامہ اقبال:۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی۔ ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
صلیبیوں نے ١٩٢٣ء میں یک طرفہ سو سالہ معاہدے کے تحت عثمانی خلافت کو ختم کر کے چالیس راجوڑوں میں بانٹ کر اپنے پٹھو حکمران بیٹھا دیے۔ اتاترک نے ترکی سے اسلام کو دیس نکالا کر دیا۔ اسلامی دنیا کے پٹھو حکمران اب تک صلیبیوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ اس وقت اتحاد بین المسلمین کی اشد ضرورت ہے۔ اتحاد سے ہی صلیبیوں اور یہودیوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ قبلہ اوّل صرف فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں۔ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذ ا مسلمان ملکوں کو آپس کی مسلکی لڑائیوں سے ہٹ کر یہود ، ہنود اور نصارا کے خلاف یک جان ہونا چاہیے۔ اس طرح قبلہ اوّل کو آزاد کرایا جا سکتا ہے ۔اسی سے مسلمان صلیبیوں کے چنگل سے آزاد ہو کر اپنے اپنے ملکوں میں آزاد معاشرے قائم کر سکتے ہیں۔اللہ! امت مسلمہ کی مدد فرمائے آمین۔