جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے والے معاہدے کو بچانے کی کوشش کے حوالے سے ہونے والی میٹنگ سے قبل ہائیکو ماس نے کہا کہ تہران ”کشیدگی کم کرنے کے بجائے اسے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔”
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران”آگ سے کھیل رہا ہے” اور ایسے میں جبکہ یورپی ممالک اور امریکی مذاکرات کار مصالحت کے نئے راستے تلاش کر رہے ہیں، تہران کشیدگی کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکا کی طرف سے سن 2015 کے بین الاقوامی جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے مجوزہ چوٹی کانفرنس سے چند گھنٹے قبل ان ملکوں کے رہنماوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تہران کی جانب سے جس طرح کی بیان بازی ہو رہی ہے اس سے معاہدے کی امیدیں دم توڑ سکتی ہیں۔
مذاکرات سے قبل جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ”ایران آگ سے کھیل رہا ہے” اور اس کے تازہ ترین اقدامات سے”مشترکہ جامع منصوبہ عمل“ (جے سی پی او اے) معاہدے میں امریکا کے واپس لوٹنے کی حوصلہ شکنی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
سن 2018 میں اس جوہری معاہدے سے امریکا کو الگ کرلینے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردینے کے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے بعد سے یہ معاہدہ تقریباً ختم ہونے کی دہلیز پر پہنچ گیا تھا۔
ہائیکو ماس کا کہنا تھا”اس وقت سب سے اہم یہ ہے کہ اس معاہدے کی طرف دوبارہ واپس لوٹنے کے لیے امریکا کی حمایت کی جائے، گوکہ جو بائیڈن نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اس معاہدے کی طرف واپس لوٹنے کا عندیہ دیا تھا لیکن ایران بظاہر کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اسے بڑھا رہا ہے۔”
پیرس میں میٹنگ ایران کی اس دھمکی کے بعد ہوئی کہ اگر امریکا اس کے خلاف عائد اقتصادی پابندیاں ختم نہیں کرتا ہے تو وہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے معائنہ کاروں کو اپنے جوہری تنصیبات تک رسائی محدود کر دے گا۔
فرانسیسی وزیر خارجہ زاں ایف لو دریان نے اس میٹنگ کی میزبانی کی، جس میں ان کے جرمن اور برطانوی ہم منصب بھی شریک تھے جب کہ امریکا کے نئے وزیر خارجہ انٹونی بلینکن ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ میٹنگ میں شامل رہے۔
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
اس دوران یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ فون پر بات چیت کی ہے۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ کر کے اس کی اطلاع دیتے ہوئے کہا یورپی یونین جے سی پی او اے کے مکمل نفاذ کی حمایت کرتی ہے۔
بات چیت کے بعد یورپی کونسل نے ایک بیان بھی جاری کیا ہے جس میں عالمی جوہری تحدید اسلحہ کے پس منظر میں جے سی پی او اے کے مکمل نفاذ کی اہمیت کے حوالے سے یورپی یونین کے موقف کا اعادہ کیا گیا ہے۔
مائیکل نے تہران کے حالیہ اقدامات پر بھی تشویش کا اظہار کیا جو ان کے بقول معاہدے کے تحت ایران کے سابقہ وعدوں سے انحراف کے مترادف ہے۔
بدھ سترہ فروری کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ایرانی صدر روحانی سے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران سن 2015 کے جوہری معاہدے پر ایران کی عدم تعمیل پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
یورپی کونسل نے اپنے بیان میں کہا ”عالمی امن، سلامتی اور اقتصادی ترقی صرف کثیر فریقی اقدامات کے ذریعہ ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔”