تحریر: رانا اعجاز حسین پاکستان نے توانائی کے ممکنہ شدید بحران کے پیش نظر برادر ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ 1993 ء میں گیس پائپ لائن منصوبے پر بات چیت کا باقائدہ آغاز کیا تھا، جس کا اسے ایک آزاد اور خودمختار ملک ہونے کے ناطے پورا حق حاصل تھا۔ ابتدائی طور پر گیس پائپ لائن کے اس منصوبے پر پاکستان’ بھارت اور ایران کے مابین اتفاق ہوا تھا تاہم بعد ازاں بھارت کی جانب سے گیس کی قیمت اور اس منصوبے کے انفراسٹرکچر کے حوالے سے اعتراضات اٹھانے اور لیت و لعل سے کام لینے پر زچ ہو کر پاکستان اور ایران نے بھارت کے بغیر ہی اس منصوبے پر کام شروع کرنے پر اتفاق کیا، اور پھر پیپلزپارٹی کے سابقہ دور حکومت میں ان دونوں ممالک کے مابین گیس پائپ لائن کی تنصیب کے باضابطہ معاہدے پر دستخط ہوئے۔
اسی دوران ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے ایران کی سرگرمیوں کو بھانپ کر امریکہ نے یواین سلامتی کونسل کے ذریعہ ایران پر عالمی اقتصادی پابندیاں لگوادیں اور پاکستان کو پیغام بھیجا کہ وہ ان پابندیوں کے پیش نظر ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے پر عملدرآمد سے گریز کرے۔
دہشت گردی کی جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناطے پاکستان کے حکمران ہر امریکی ڈکٹیشن قبول کرنے اور اسکے ”ڈومور” کے تقاضے پورے کرنے کی مجبوری میں بندھے ہوئے تھے۔ اس امریکی ڈکٹیشن پر اگرچہ زرداری حکومت کی جانب سے پاکستان کے آزاد اور خودمختار ریاست ہونے اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ ہر صورت پایہ تکمیل کو پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا جاتا رہا، تاہم آصف علی زرداری نے اپنی حکومت کی آئینی میعاد پوری ہونے سے صرف ایک ماہ قبل ایران جا کر اس وقت کے صدر ایران محمود احمدی نژاد کے ہمراہ اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا اور اس پر کام کا آغاز کرنے کا اعلان کیا۔
Iran-Pakistan Gas Pipeline
اس وقت کے مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے منصوبے پر عملدرآمد کے آغاز کا عندیہ بھی دیا مگر عملاً امریکی ڈکٹیشن کو قبول کرلیا گیا اور گیس پائپ لائن منصوبے کی فائل سردخانے میں رکھ دی گئی چنانچہ اس منصوبے پر ہماری جانب سے ایک قدم کی بھی پیش رفت نہ ہوسکی ۔ جبکہ ایران نے مقررہ میعاد کے اندر اپنے حصے کی پائپ لائن بچھا بھی دی۔
اگر معاہدے کے مطابق مقررہ میعاد کے اندر گیس پائپ لائن کا منصوبہ مکمل ہو کر آپریشنل ہو جاتا تو ہمارے ملک میں سنگین تر ہوتے توانائی کے بحران پر قابو پالیا جاتا مگر اپنی ضرورت کے پیش نظر بھی اس منصوبے کی پاسداری تو کجا’ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کا بھی خیال نہ رکھا گیا اور یہ منصوبہ مسلسل لٹکایا جاتا رہا۔ اسکے برعکس امریکہ اور یورپی یونین نے ایرانی قیادت کے ملکی مفادات کی پاسداری والے اعلانات و اقدامات سے لاچار ہو کر گزشتہ سال ایران کے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی کے عدم پھیلائو کا معاہدہ کرلیا جسے امریکی صدر اوبامہ نے عالمی امن کیلئے بڑی کامیابی قرار دیا۔
اس معاہدے کی بنیاد پر ہی ایران پر عائد عالمی اقتصادی پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا گیا، جس کے عملی قالب میں ڈھلتے ڈھلتے چھ ماہ کا عرصہ بیت گیا۔ اس دوران امریکہ اور ایران کی جانب سے ایک دوسرے پر بداعتمادی کا اظہار بھی جاری رہا اور ایران کی پارلیمنٹ نے بالآخر اعلان کر دیا کہ امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک نے ایران کو دبانے کا سلسلہ جاری رکھا تو وہ 45 سال قبل کئے گئے ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے سی ٹی بی ٹی سے بھی دستبردار ہو جائیگا۔ چنانچہ اس ایرانی سخت رویے کے پیش نظر ہی سلامتی کونسل ایران پر عائد عالمی اقتصادی پابندیاں باضابطہ طور پر ہٹانے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئی۔
اس طرح ایران کو عالمی پابندیوں سے نجات میسر آچکی ہیں۔ مگر ایران پر عائد پابندیاں ہٹنے کے باوجود ہمارے حکمرانوں نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کا آغاز نہ کیا اور توانائی کے حصول کے دیگر آپشنز پر غور شروع کر دیا جو ایک طرح سے امریکہ کو خوش رکھنے کی ہی کوشش تھی جبکہ ایران ہمارے حکمرانوں کو خودمختار ملک کے حکمران ہونے کا گاہے بگاہے احساس دلاتا رہا ہے۔ اسی دوران گزشتہ ماہ امریکی نائب وزیر خارجہ نے اپنے دورہ اسلام آباد کے دوران دیگر امور کے علاوہ ہمارے حکمرانوں کو یہ بھی باور کرایا کہ ایران پر عالمی اقتصادی پابندیاں ہٹنے کے باوجود امریکی پابندیاں بدستور عائد ہیں، اس لئے پاکستان اسکے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کا اسی تناظر میں جائزہ لے اور یہ منصوبہ شروع کرنے کے بجائے متبادل آپشنز کا سوچے جس کیلئے امریکہ اسکی معاونت کو تیار ہے۔
America
چنانچہ پاکستان نے بادی النظر میں اس امریکی ڈکٹیشن کو قبول کرتے ہوئے ہی قطر کے ساتھ ایل این جی کے حصول کا معاہدہ کیا ہے جس کے حوالے سے پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ترک کرنے کی راہ ہموار کرنے کیلئے ایل این جی کے سستا ترین ہونے کا پراپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ اب پاکستان نے سلامتی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھانے کا اعلان تو کردیا ہے تاہم اب بھی ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر پاکستان کی جانب سے کام شروع ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے اب توانائی کے حصول کیلئے اپنی ترجیحات ہی تبدیل کرلی ہیں۔
نہ جانے کون سی ایسی مجبوری یاخوف ہے کہ حکمران ابھی تک امریکی مفادات کو ہی پیش نظر رکھ رہے ہیں اور سستی گیس کے حصول کیلئے اپنے پڑوسی اور برادر مسلم ملک ایران کے ساتھ طے کئے گئے گیس پائپ لائن منصوبے کے آغاز کی جرائت ہی نہیں کر پارہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی فائل دبائے رکھنے کی جو پالیسی پیپلزپارٹی کی حکومت نے طے کی تھی اس پر مسلم لیگ (ن) بھی کاربند نظر آتی ہے۔ اب بھی بعض حلقوں کی جانب سے یہی تاثر دیا جارہا ہے کہ پاکستان کے ایران پر پابندیاں اٹھانے کے اعلان کے باوجود امریکی دبائو گیس پائپ لائن منصوبے پر آڑے آسکتا ہے۔
اگر ایسا ہوا تو ہماری خودمختاری کے حوالے سے یہ صورتحال کسی المیے سے کم نہیں ہوگی۔ ہمیں توانائی کے بحران سے عہدہ براء ہونے کیلئے ایران سمیت خطے کے کسی بھی ملک سے معاونت لینے کا پورا حق حاصل ہے، اسلئے حکومت کو اغیار کی ڈکٹیشن کی بجائے ملک کی ضرورتوں اور مفادات کے مطابق اپنی قومی خارجہ پالیسی بنانی چاہیے ۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل بلاشبہ پاکستان میں جاری انرجی بحران کے خاتمے میں نہایت ممدون ثابت ہوسکتی ہے، ہمیں انرجی بحران کے خاتمے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کا آغاز کرنا چاہئے اور اس ضمن میں کسی ڈکٹیشن کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔
Rana Aijaz
تحریر: رانا اعجاز حسین ای میل:ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033