ایران کی طرف سے خلیج میں زیر زمین میزائل اڈے کا انکشاف

Missile Base

Missile Base

تہران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے ریوولوشنری گارڈز نے خلیج کے ایک نا معلوم زیر زمین میزائل اڈے کی نقاب کشائی کی ہے۔ ایرانی سرکاری میڈیا نے اس بارے میں ایک ایسے وقت میں رپورٹ شائع کی ہے جب واشنگٹن اور تہران کے مابین کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔

ایران کے انقلابی گارڈز، جنہیں پاسداران انقلاب بھی کہا جاتا ہے، کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے ریاستی میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہا،”یہ اڈہ ان متعدد اڈوں میں سے ایک ہے جہاں ایرانی بحریہ کے متعدد اسٹریٹیجک ہتھیار رکھے جاتے ہیں۔‘‘

یاد رہے کہ گزشتہ برس ایران کے انقلابی گارڈز نے کہا تھا کہ ایران نے خلیج کے ساحل کے ساتھ ساتھ زیر زمین میزائل شہر تعمیر کیا ہے جو ” ایران کے دشمنوں کے لیے ایک بھیانک خواب‘‘ کا انتباہ ہے۔ پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے مزید کہا،” یہ میزائل سینکڑوں کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں، اپنے سمت کی درستگی میں مہارت رکھتے ہیں، تباہ کُن طاقت کے حامل ہیں اور اپنے دشمن کے الیکٹرانک جنگی ساز و سامان پر مہارت سے قابو پا سکتے ہیں۔‘‘

جنرل حسین سلامی نے اس امر پر زور دیا کہ جمعہ 8 جنوری کو خلیج کے جس نامعلوم زیر زمین میزائل اڈے کی نقاب کشائی کی گئی ہے، وہ ایران کی نیوی یا بحریہ اسٹریٹیجک میزائلز کے متعدد دیگر اڈوں میں سے ایک ہے۔

خلیج کے علاقے میں حالیہ چند برسوں میں پاسداران انقلاب اور امریکی فوج کے مابین آئے دن نوک جھوک ہوتی رہی ہے۔ امریکا ایرانی بحریہ پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ آبنائے ہُرمزمیں تیز رفتار حملہ آور کشتیاں بھیجتی ہے تاکہ امریکی جنگی بحری جہازوں کو ہراساں کیا جا سکے۔

تہران اور واشنگٹن کے مابین تعلقات سن 2018 سے بہت کشیدہ ہیں۔ ایران اور چھ ممالک کے مابین 2015 ء میں طے پانے والی جوہری ڈیل کو رد کرتے ہوئے 2018 ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر ڈیل سے نکل جانے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی ٹرمپ نے ایران پر دوبارہ سے سخت ترین اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں جن کے سبب ایران کی معیشت تباہ حالی کا شکار ہے۔

صدارتی عہدے سے سبک دوشی کے قریب ڈونلڈ ٹرمپ اپنی عہدے کی مدت کے اختتامی دنوں میں بھی ایران پر مزید پابندیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور صرف دو روز قبل ایران کی اسٹیل اور دیگر دھاتیں تیار کرنے والی 12 کمپنیوں اور ان میں سے ایک کمپنی کے غیر ممالک میں موجود تین ایجنٹ کمپنیوں کے خلاف نئی پابندیاں کا اعلان کیا۔

امریکی وزارت خزانہ نے نئی پابندیوں کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ کائیفینگ پِنگمائی (KFCC) نامی ایک چینی کمپنی نے دسمبر 2019ء سے جون 2020ء کے دوران ایرانی دھات ساز کمپنیوں کو ہزاروں میٹرک ٹن ایسا کاربن میٹیریل فراہم کیا جو اسٹیل کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔

امریکا کی طرف سے جن 12 ایرانی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے ان میں ‘مڈل ایسٹ مائنز اینڈ منرل انڈسٹریز ڈیویلپمنٹ ہولڈنگ ‘ (MIDHCO) بھی شامل ہے۔ ایرانی وزارت خزانہ کے مطابق اسی کمپنی کے جرمن شہر ہیمبرگ میں واقع ذیلی ادارے ‘جی ایم ای پراجیکٹس ہیمبرگ‘ پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اسی کمپنی کے چین اور برطانیہ میں قائم ذیلی ادارے بھی پابندیوں کی زد میں آئے ہیں۔