تحریر : سید توقیر زیدی ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ بھارتی”را” ایجنٹوں کی ایران میں موجودگی کے انکشاف کے بعد مْلک بھر میں چھاپے مارے جا رہے ہیں، اپنی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ایران پاکستان سمیت کسی مْلک کے لئے خطرہ نہیں اور اپنے ہمسایہ مْلک اور پوری دْنیا کے ساتھ مکالمت اور اعتدال پسندانہ رابطے چاہتا ہے۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران کسی بھی قوم کے لئے کسی خطرے کا باعث نہیں ہے۔بلوچستان سے ”را” کے ایجنٹ کی گرفتاری کے بعد پاکستان نے یہ معاملہ ایران سے اْٹھایا تھا چونکہ ”را” کے ایجنٹ کے پاسپورٹ پر ایرانی ویزہ لگا ہوا تھا اور وہ تاجر کے روپ میں وہاں رہ رہا تھا۔ اِس لئے پاکستان نے بجا طور پر برادر اسلامی مْلک ایران کو اِس ضمن میں آگاہ کیا کہ وہاں ”را” کے ایجنٹوں پر نظر رکھی جائے۔
غالباً پاکستان کے توجہ دِلانے ہی پر وہاں کلبھوشن یادیو کا ایک ماتحت انسپکٹر پکڑا گیا ہے، عین ممکن ہے اِن دونوں ایجنٹوں کی نشاندہی پر مزید گرفتاریاں بھی ہوں، کیونکہ جس وسیع پیمانے پر بلوچستان اور کراچی میں تخریبی کارروائیاں کی جا رہی تھیں، طویل عرصے سے یہ سلسلہ نہ صرف جاری تھا، بلکہ کسی طرح رْکنے میں بھی نہیں آ رہا تھا، خصوصاً بلوچستان میں ہزارہ قبیلے کے خلاف جس طرح بلا روک ٹوک تخریبی کارروائیاں ہو رہی تھیں وہ بہت ہی تشویش ناک شکل اختیار کر چکی تھیں۔ ہزارہ قبیلے کے متاثرین اِس صورت حال سے تنگ آ کر مْلک بھی چھوڑ رہے تھے، صوبائی اور وفاقی حکومت کی تشویش بھی بڑھتی جا رہی تھی، امن و امان قائم رکھنے اور قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے بھی یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ بلوچستان میں جس طرح کی بدامنی پھیل رہی ہے اس میں ”را” سمیت غیر ملکی ایجنسیوں کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ کلبھوشن اور افغان خفیہ ایجنٹ کی گرفتاری سے یہ شبہ نہ صرف یقین میں بدل گیا ہے، بلکہ گرفتار ایجنٹوں سے جو معلومات حاصل ہو رہی ہیں اْن کی وجہ سے مقامی آلہ کاروں تک رسائی بھی ممکن ہو رہی ہے۔
Hassan Rouhani
ایرانی صدر حسن روحانی کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ ایران میں بھی ”را” کے ایجنٹوں کی گرفتاریوں کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دِنوں یہ اطلاعات بھی آئی تھیں کہ بعض ایجنٹ گرفتاریوں کے خدشے کی وجہ سے ایران سے فرار ہو کر دوسرے ملکوں کو چلے گئے ہیں، پاکستان کی جانب رْخ کرنا تو اب اْن کے لئے آسان نہیں رہا، تاہم ایران کا یہ اقدام بروقت، مناسب اور پاکستان کے لئے باعثِ مسرت ہے اگر ایران اِس ضمن میں تعاون کا دائرہ وسیع کرے گا تو یہ نہ صرف پاکستان کے لئے مفید ثابت ہو گا، بلکہ ایران کی سالمیت کے لئے بھی بہتر ہو گا، کیونکہ بعض عناصر نے پاکستانی سرحد کے قریبی علاقوں میں گھس کر ایرانی حکام پر فائرنگ کی تھی، جس سے پاسداران انقلاب کے اہلکار جاں بحق ہو گئے تھے، فرقہ وارانہ بنیادوں پر یہ کارروائیاں پاکستان میں ہونے والی کارروائیوں ہی کا تسلسل ہو سکتا ہے اور یہ امر بھی بعید از قیاس نہیں ہو گا کہ ایران کے اندر کارروائیاں کرنے والے بھی بھارتی ایجنٹوں کے آل?? کار ہوں۔
اس طرح ایک تیر سے کئی شکار کئے جا رہے تھے۔ ایران کے اندر تخریبی کارروائی سے اول تو ایران کے حکام مشتعل ہوتے جیسا کہ وہ ہوئے، دوسرے اس طرح دونوں ملکوں میں غلط فہمیاں پیدا کر کے تعلقات میں بگاڑ بھی پیدا کیا جاتا۔ بھارت غالباً یہی چاہتا ہے اس نے گوادر کے مقابلے میں ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کو ترقی دینے کا اعلان کر رکھا ہے، ویسے تو ہر مْلک کا حق ہے کہ وہ اپنے علاقوں کو جس طرح چاہے ترقی دے۔ جیسے چاہے استعمال کرے، لیکن چاہ بہار پر اگر بھارت کی نظر ہے تو اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں گوادر خطے کی ترقی کا باعث نہ بن پائے، بھارت نے چاہ بہار میں سرمایہ کاری کا اعلان نہ تو ایران کی محبت میں کیا ہے اور نہ اس کے پیشِ نظر اس کا مفاد ہے، بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان اْن مفادات سے محروم رہے جو اسے گوادر سے حاصل ہونے والے ہیں۔
گوادر کے علاوہ بھارت کا ہدف پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھی ہے، کیونکہ یہ شاہراہ گوادر کو چین سے ملائے گی اور یوں چین کی درآمدات و برآمدات کا روٹ کئی ہزار کلو میٹر چھوٹا ہو جائے گا اور اگر پاکستان اور ایران نے گوادر اور چاہ بہار کے درمیان بھی سڑک یا ریل کا رابطہ قائم کر دیا تو اِس راہداری کی افادیت کئی گنا بڑھ جائے گی، بھارت اس کی تعمیر سے خوش نہیں اور جب پاکستان اور چین کا معاہدہ ہونے والا تھا نریندر مودی نے اپنے دور? چین کے دوران اِس معاملے پر اپنی تشویش چینی صدر کے سامنے ظاہر کر دی تھی، جسے انہوں نے چنداں اہمیت نہ دی اور کہا کہ یہ پاکستان اور چین کا باہمی معاملہ ہے۔ بھارت کو اس پر تشویش نہیں ہونی چاہئے۔
Narendra Modi
نریندر مودی نے چین سے مایوس ہو کر اپنے ایجنٹ کو اِس راستے پر لگایا کہ راہداری کے منصوبے کو پاکستان میں متنازعہ بنانے کے لئے کام کیا جائے، کلبھوشن نے دوران تفتیش یہ بات تسلیم بھی کر لی ہے کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے کام کر رہا تھا، جب سے یہ راہداری منصوبہ منظرِ عام پر آیا ہے اگر واقعات کی رفتار کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے کس طرح بلوں سے باہر نکل کر اسے ”کالا باغ” بنانے کے لئے تْل گئے تھے۔عین اس موقع پر جنرل راحیل شریف بھی میدان میں آئے اور انہوں نے مسلسل ایسے بیانات دیئے اور اپنے عمل سے بھی ثابت کیا کہ وہ اس گیم چینجر منصوبے کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کریں گے۔
اب اس منصوبے پر کام جاری ہے اور فوج نے سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کئے ہیں، یہی بات جنرل راحیل شریف نے چین کے پولٹ بیورو کے سینئر رکن کے ساتھ اپنی ملاقات میں بھی کہی،جس پر چینی رہنما نے خوشی کا اظہار کیا، اب چشم بینا دیکھ سکتی ہے کہ راہداری کے مخالفین کے سْرخاصے دھیمے ہو گئے ہیں، کلبھوشن گرفتار نہ ہوتا تو ممکن ہے وہ اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے راہداری پر اختلافات کے شعلوں کو ہوا دیتا رہتا، لیکن اب لگتا ہے کہ آگ لگانے والوں کے لئے یہ کام بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ایران میں بھی ”را” کے ایجنٹوں کی گرفتاریوں کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔امید کی جا سکتی ہے کہ ”را” کا پھیلا یا ہوا جال اب کاٹ دیا جائے گا۔ اِس ضمن میں ایرانی تعاون بہت زیادہ قابلِ ستائش ہے اور یہ بات دونوں ملکوں کی سالمیت کے حق میں جاتی ہے