واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے بیرون ملک امریکی فورسز پر حملوں سے واشنگٹن کو تہران کے ساتھ جلد جوہری سمجھوتے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
امریکا کے خصوصی ایلچی برائے ایران راب میلے نے وائس آف امریکا سے جمعرات کے روز گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ایران نواز ملیشیاؤں کے حملوں سے واشنگٹن کو عاجلانہ اقدامات کے لیے دباؤ میں نہیں لایا جاسکے گا۔‘‘
انھوں نے اس مؤقف کا اعادہ کیاکہ ’’ایران امریکا کو دباؤ میں لانے کی کوششوں کے حصے کے طور پر ان حملوں کی ہدایت کاری کررہا ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ ان سے کام کیسے چلے گا۔‘‘
راب میلے کا کہنا تھا کہ ’’امریکا ان حملوں کا جواب دیتا رہے گا۔‘‘
عراق میں ایران کی گماشتہ شیعہ ملیشیاؤں کے جنگجو امریکی فورسز اور اس کی تنصیبات پر آئے دن راکٹ یا مارٹر حملے کرتے رہتے ہیں۔گذشتہ ماہ صدر جوزف بائیڈن نے شام میں ایران کی گماشتہ ملیشیاؤں پر فضائی حملے کا حکم دیا تھا۔انھوں نےعراق کے شمالی شہر اربیل میں امریکی فورسز پر حملوں کے ردعمل میں یہ حکم دیا تھا۔
اس حملے کے ایک روز بعد عراق کے مغربی صوبہ الانبار میں واقع عین الاسد ائیربیس پر راکٹ حملے میں ایک امریکی شہری ہلاک ہوگیا تھا۔امریکا نے ابھی تک اس حملے کا جواب نہیں دیا ہے۔
مسٹر میلے نے ان حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس طرح کی صورت حال میں امریکا میں بالکل مدد نہیں ملے گی کہ عراق یا کسی اور جگہ میں ایران کے اتحادی امریکیوں پر گولیاں چلا رہے ہیں۔‘‘
صدر جوبائیڈن ایران کے ساتھ 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے میں امریکا کی دوبارہ شمولیت چاہتے ہیں لیکن انھوں نے یہ شرط عاید کررکھی ہے کہ ایران اس سے پہلے اپنا تمام حساس جوہری کام بند کردے جبکہ ایران اس سے پہلے امریکا سے تمام پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔
امریکی کانگریس کے ری پبلکن اور ڈیموکریٹس ارکان بھی صدر بائیڈن کی ایران پالیسی پر منقسم ہیں اور متضاد نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ری پبلکن ارکان سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے بارے میں سخت پالیسی اور اس پر عاید کردہ پابندیوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں جبکہ ڈیموکریٹس پابندیاں ہٹانے کے حق میں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ایران اپنے جوہری اور بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام سے دستبردار ہوجائے گا اور اپنے کردار میں تبدیلی لائے گا۔