واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ’’امریکہ تاوان نہیں دیا کرتا۔
پہلے طے ہونے والے اسلحے کی فراہمی کے ناکام سمجھوتے کی جزوی ادائگی کے طور پر دیے گئے۔ تاہم، ناقدین، خصوصی طور پر وہ جو ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کے مخالف ہیں، اِسے تاوان کی ادائگی قرار دیتے ہیں۔
فلوریڈا کے سینیٹر مارکو روبیو نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے یہ سمجھوتا ’’بالکل غیر حقیقی‘‘ تھا۔
بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے‘‘۔
جمعرات کے روز ارجنٹینا کے دورے کے دوران، وزیر خارجہ کیری نے اس اقدام کا دفاع کیا۔
کیری کے الفاظ میں ’’امریکہ تاوان ادا نہیں کیا کرتا اور کسی ملک کے ساتھ تاوان سے متعلق گفت و شنید نہیں کی جاتی۔۔۔ہم نے کبھی ایسا نہیں کیا نہ اب ایسا کر رہے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ ہماری پالیسی نہیں ہے۔ پہلی بات یہ ہے، دوئم: یہ کہانی کوئی نئی کہانی نہیں۔ اس بات کا اعلان امریکی صدر نے خود کیا تھا، جس وقت یہ لین دین کی جارہی تھی، اور جوہری سمجھوتے کو عملی جامہ پہنایا جا رہا تھا‘‘۔
اس سے قبل وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جوش ارنیسٹ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس ادائگی کو تاوان بتانے والے وہی لوگ ہیں جو ’’ایران میں دائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں، اور (امریکہ میں) ری پبلیکنز ہیں، جو (جوہری) سمجھوتے کو پسند نہیں کرتے‘‘۔
امریکہ نے یوروز، سوس فرینکس اور دیگر کرنسی میں نقدی کو لکڑی کی پیٹیوں ڈال کر بغیر نشان کے ایک مال بردار طیارے میں ایران روانہ کی۔
یہ 1.7 ارب ڈالر کے تصفیے کی رقم کی پہلی قسط تھی جو سنہ 1979ء میں ایران کے ساتھ امریکہ کے ناکام اسلحے کی فراہمی کے معاہدے کے بدلے میں تھی، جو ایران کے آخری شہنشاہ، شاہ محمد رضا پہلوی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے سے کچھ ہی روز پہلے کا معاملہ ہے۔ امریکہ نے یہ نقدی غیر ملکی سکوں میں فراہم کی چونکہ امریکی قانون کے مطابق، ایران کے ساتھ ڈالر میں لین دین غیر قانونی ہے۔
دی واشنگٹن پوسٹ‘ کے تہران کے بیورو چیف، جیسن رضائیاں؛ میرین ویٹرن امیر حکمتی؛ مسیحی مبلغ سعید عابدینی؛ اور چوتھے شخص نصرت اللہ خسروی ردسری جن کے لاپتا ہونے کا عام لوگوں کو علم نہیں تھا، شامل تھے۔