ایران نے اب پاکستان کو آنکھیں دکھانی شروع کر دی ہیں۔ ستم ظریفی ء حالات یہ وہی ایران ہے جس سے ہم آر سی ڈی میں تکونی بھائی ہوا کرتے تھے۔ ہمارے لئے تو وہ ڈکٹیٹر ہی اچھا تھا جو خطے میں ہمارا ساتھی تھی۔شہنشاہ ایران کے دور میں پاکستان اور ایران کے بہترین تعلقات تھے اس میں ترکی کی دوستی نے محبت کے رنگوں کو چوکھا رنگ دے دیا۔ دنیا ١٩٧٩ میں ایرانی انقلاب کو اسلامی انقلاب کا نام دے رہی تھی کہ اچانک اس میں فقہی غلبہ ہوا اور یہ شیعہ انقلاب کی صورت اختیار کر گیا۔
مشرق وسطی کے بہت سے ملک اس سیاہ انقلاب کا شکار ہو چکے ہیں۔بحرین تو دو بار بال بال بچا ہے، باقی لبنان، شام، عراق کی صورت حال ہم سب جانتے ہیں۔ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ایرانی کیسے زندہ رہنا چاہتے ہیں وہ کون سا طریقہ زیست اپنانا چاہتے ہیں۔خمینی کے انقلاب نے خطے کے ہر ملک کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے اور تو اور ٨٠ کی دہائی میں حج کے موقع پر ایرانی حاجیوں کے پر تشدد مظاہروں نے امت مسلمہ کی آنکھیں کھول کے رکھ دی ہیں۔ منی مزدلفہ اور مکہ مکرمہ کے گلی کوچوں میں مرگ بر امریکہ کے نعرے در اصل امریکہ کے خلاف نہ تھے وہ حرمین کی دھرتی پر ایرانی مداخلت کا زندہ ثبوت تھے۔
سعودی عرب نے برداشت کیا اور جب برداشت سے باہر ہوا تو طاقت کا استعمال کر کے اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔عرب و عجم کی اس لڑائی میں اب بہت سے کھیت تباہ ہو رہے ہیں جس میں اور ملکوں کے علاوہ پاکستان بھی شامل ہے۔ کل ہی کی مثال سامنے رکھ لیجئے ایران نے پاکستان کو کھلی دھمکی دے دی ہے کہ وہ اپنے گارڈز کی بازیابی کے لئے پاکستان کی حدود میں کاروائیاں کرے گا۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ ایرانپاکستان کو مشکلات میں گھرا دیکھ کر اپنی اوقات میں آ گیا ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں کبھی بھی اس خوش فہمی میں نہیں رہا کہ ایران امریکہ کا دشمن ہے اس وقت بھی جب یہ شور و غوغا بلند ہو رہا تھا کہ امریکہ ایران پر حملہ کرے ہی کرے میں اسے ٹوپی ڈرامہ سمجھتا تھا اور اس کے پیچھے میری اپنی معلومات تھیں۔
ایران کے مشہور شہر اصفہان میں یہودیوں کی ایک خاصی بڑی بستی ہے جہاں وہ بڑے مزے سے زندگی گزار رہے ہیں۔ایک ایسا ملک جو یہودیوں کے لئے پر امن ملک ہو جہاں انہیں ایرانی شہریوں سے زیادہ آسائشیں ملتی ہوں اسے امریکی کیوں دشمن بنائیں گے جہاں یہودیوں کا قبضہ ہے۔یہ ڈرامہ ایک عرصے تک چلتا ر ہا اس دوران ایران پاکستان اور انڈیا گیس لائن کے معاملے میں یہ باور کرایا گیا کہ امریکہ اس منصوبے کا سخت مخالف ہے۔بات ایران کی مخالفت کی نہیں تھی مسئلہ پاکستان کو تنگ کرنا تھا کہ وہ کسی جانب سے بھی ریلیف نہ حاصل کر سکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایرانی مفادات سعودی عرب کی مخالفت سے وابستہ ہیں۔اس بات کو ہم جانتے ہیں اور دنیا کہ سعودی عرب کی وہابی سٹیٹ کی ایرانی شیعہ مملکت سے نہیں بنتی۔ایران عراق میں شیعہ انقلاب لانے میں کامیا ب رہا اور صدام حکومت کے خاتمے میںاس نے عراقی شیعوں کی بھر پور مدد کی۔حالات نے اس وقت پلٹا کھایا جب امریکیوں نے صدام کہ شہہ دی کی کویت پر قبضے کی مخالفت نہیں کی جائے گی۔ایران عراق وار کے آٹھ سالوں میں سعودی حکومت اور امریکہ کی جانب سے مدد پانے والا صدام بڑے مان سے کویت پر چڑھ دوڑا اور اس اثناء میں امریکیوں نے اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لئے ان کی لڑائی میں امریکی اسلحے کا بھرپور استعمال ہوا اور کہنے والے تو کہتے ہیں یہ صرف آئیل کمپنیوں اور اسلحے کے کے کاروبار کی جنگ تھی۔
Iranian Interior Minister
صدام حسین کی حکومت تو ختم ہو گئی مگر اس سے خطے میں طاقت کا توازن سراسر ایران کے حق میں چلا گیا۔ یہی بات ایران کی گردن میں سریا دے گئی اور اس نے محسوس کر لیا ہے کہ وہ واقعی اب خطے کا تھانے دار ہے۔ ورنہ اس کی جراء ت اور اوقات ہی کیا ہے کہ وہ ایک جانب سعودی حکومت کو آنکھیں دکھا رہا ہے اور دوسری جانب پاکستان کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سعودی ولی عہد شاید اس اہم دورے میں مشرف کی بات کریں گے۔پرویز رشید قسمیں کھا رہے ہیں کہ اس بار قسم سے کوئی بات نہیں ہوئی۔
ان کی اس بات پر ہنسا ہی جا سکتا ہے،اس لئے جب کوئی بات ہو گی تو پرویز رشید کو بیچ میں بٹھایا جائے گا؟جب راجہ بوج آپس میں ملتے ہیں تو کسی گنگو کو نہیں پوچھا جاتا۔سعودی عرب میں قیام کے دوران میاں نواز شریف اتنی عربی بول لیتے ہیں جس سے گزارا ہو گیا ہو گا۔ویسے بھی فوج میں کوئی ریٹائر نہیں ہوتا اس کاتماشہ ہم روز دیکھتے ہیں۔ آرمد فورسز ہسپتال پر لگتا ہے حکومت پاکستان کی فاٹا کے علاقوں کی طرح مکمل رٹ نہیں کہ اسی کھڈ سے ملزم نکلتا ہے اور وہیں چھپ جاتا ہے۔
میرے ایک سابق فوجی مہرباں تو اس افراتفری میں انقلاب کی بو سونگھتے ہیں۔جو مجھے پورا یقین ہے قوم کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔ جن حالات کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے انہیں مد نظر رکھتے ہوئے مملکت سعودی عرب کو خطے میں یقینا اپنے دوستون کی تلاش تھی جو بہر حال اسے مل گئے۔ (مجھے پورا یقین ہے یہ ٹی ٹی پی نامی وہ انڈین اور امریکن ایجنٹ نہیں ہیں جو معصوم لوگوں کی جانیں لیتے ہیں) ایک جانب سپاہ محمد کے ایران سے بڑھتے ہوئے تعلقات تھے ضیاء دور میں اس چپقلش کا شکار بے شمار پاکستانی ہوئے۔ اس میں علامہ عارف حسینی بھی گئے اور احسان الہی ظہیر بھی۔ ایک جانب شیعہ ہیں اور دوسری طرف سنی مگر سنیوں کی تقسیم بریلوی، دیوبندی اور وہابی شکل میں ہمارے سامنے ہے،جن کا آپس میں اٹ کھڑکا بھی دیکھنے کو آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقسیم شدہ سنی مجتمع شیعوں کے مقابلے میں کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ایران جب پاکستان کو دھمکی دے رہا ہے تو اس کے ذہن میں یہ سارا منظر موجود ہے۔ راولپنڈی میں ہونے والے واقعے کو دیکھا جائے تو اوپر بیان کئے گئے خدشات درست ثابت ہوتے ہیں۔ مگر یہاں ایک غلطی کر رہا ہے جس کا ذکر آخر میں کروں گا۔
اب تازہ ترین مروڑ جو ایرانیوں کے پیٹ میں اٹھا ہے وہ شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کے دورے سے اٹھا ہے۔ یہاں ہمیں پاکستان کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب جتنا مرضی صاحب ثروت ہو پاکستان کی عسکری طاقت ہمیشہ اس کی ضرورت رہی ہے۔پاکستان کے حرمین سے قلبی تعلق کو سمجھنے کے لئے مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مملکت میں مقیم پاکستانیوں نے اس ملک میںصرف ریال کمانے کے لئے قیام کیا بلکہ دنیا کے مقدس ترین مقامات کے لئے جان دینا ان کے لئے باعث فخر ہے اور وہ اس ملک کی تعمیر میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اگر کسی سعودی کو یہ غلط فہمی ہے کہ ریال کے تیس بنتے ہیں تو اسے بھی ذہن سے نکال دینا ہو گا کہ پاکستانی صرف ریالوں کے لئے فرمان خان بنتے ہیں جو ڈوبتے سعودیوں کو آبی ریلوں سے نکالتے ہوئے جدہ میں جان دے گیا تھا۔
Pakistan
اللہ کے گھر اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاک کے لئے مرنا صرف پاکستانی کو ہی آتا ہے۔ اس سر زمین کے لئے ماضی میں بھی پاکستان اپنے آپ کو پیش کرتا رہا ہے اور وہ اب بھی دریغ نہیں کرے گا اس رشتے کو ایران کو بھی سمجھنا ہو گا۔ ایران کو ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پاکستانی شیعہ جتنا مرضی ایران کے ساتھ قلبی تعلق رکھتے ہوں مادر وطن کے لئے وہ کبھی بھی غیر کا ساتھ نہ دیں گے۔ یہی بات پاکستان کا اعزاز ہے۔ ایران کسی غلط فہمی کا شکار نہ رہے۔