امریکہ (جیوڈیسک) امریکہ کے صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے پہلی مرتبہ تسلیم کیا ہے کہ ایران کو فراہم کی جانے والی 40 کروڑ ڈالر کی رقم امریکی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے مقصد کے حصول طور پر استعمال کی گئی۔
رواں ماہ کے اوائل میں صدر براک اوباما نے نے اس بات کی تردید کی تھی ایران کو رقم کی فراہمی کسی ’’مذموم‘‘ مقصد کے لیے استعمال کی گئی اور کہا کہ رقم کی فراہمی جنوری میں جوہری معاہدے کے نافذ العمل ہونے کے فوراً بعد ادا کر دی گئی تھی۔
ایران کی طرف سے بھی کہا گیا تھا کہ امریکہ کی طرف سے جنوری میں دی گئی رقم دراصل تہران کی وہی رقم ہے جو 1979ء کے انقلاب سے پہلے سے امریکہ کے پاس تھی۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی کہہ چکے ہیں کہ رقم کی منتقلی ایران کے اس قانونی دعوے پر عملدرآمد کے نتیجے میں ہوئی جس پر جوہری پروگرام پر ہونے والے مذاکرات کے علاوہ بات چیت کی جاتی رہی۔
ایران کے تقریباً چالیس کروڑ ڈالرز کے اثاثے امریکہ نے 1981ء میں منجمد کر دیے تھے جن پر ایک ارب تیس کروڑ ڈالر منافع بھی شامل ہے۔ یہ رقم 1979ء کے انقلاب سے قبل ایران نے امریکہ سے فوجی سازوسامان خریدنے کے لیے دیے تھے۔
امریکہ محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ ’’ہمیں تشویش تھی کہ ایران قیدیوں کی رہائی سے انکار کر سکتا ہے۔‘‘ کیوں کہ اُن کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان کئی سالوں سے عدم اعتماد کی فضا تھی۔
’’تو اگر آپ مجھے سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ رقم کی ادائیگی اور اس معاملے کے خاتمے میں کوئی تعلق تھا، تو میں اس سے انکار نہیں کر رہا۔‘‘
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے ناقدین، اس رقم کی ادائیگی کو بطور ’’تاوان‘‘ کی ادائیگی قرار دیتے ہیں۔ ریپلکن قانون سازوں نےاوباما انتظامیہ کے اس اقدام پر یہ کہہ کر تنقید کی تھی کہ امریکہ کی طرف سے اپنے شہریوں کی رہائی کے لیے تاوان نا ادا کرنے کی پالیسی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
واضح رہے جنوری میں ایران نے چار امریکی قیدیوں کو رہا کیا تھا جن میں امیر حکمتی، سعید عابدینی، جیسن رضائیاں اور نصرت اللہ خسروی ردسری شامل تھے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ اِن افراد کی رہائی ایران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں عمل میں آئی۔