جدہ (جیوڈیسک) سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے کہا ہے کہ ایران کے نظریے کا مقصد عالم اسلام کو کنٹرول کرنا ہے اور ایرانی اس کی منطق یہ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح وہ امام المہدی کے ظہور کی راہ ہموار کریں گے۔
انھوں نے اس گفتگو کے دوران میں سعودی عرب کی معیشت ،سیاست اور معاشرت ،خطے کی صورت حال اور ایران کے مشرق وسطیٰ میں کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’’ایرانی رجیم انتہاپسندی کے نظریے پر استوار ہے ،اس لیے اس کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے‘‘۔ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب خطے میں ایرانی رجیم کا بنیادی ہدف ہے۔
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کے برقی پورٹل ’’ سعودی شہری‘‘ میں قریباً ایک کروڑ شہریوں کو رجسٹر کیا گیا ہے اور اب سعودی حکام ان رجسٹرڈ شہریوں کو حکومت کی جانب سے اقدامات کا فائدہ پہنچانے کے لیے کام کررہے ہیں۔
شہزادہ محمد نے سعودی مملکت میں شفافیت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن میں ملوّث کسی بھی شخص کو معاف نہیں کیا جائے گا۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے اس مصاحبے میں سعودی عرب ، خلیج اور عرب دنیا کی سیاست اور اس سے متعلق مختلف ایشوز اور خاص طور پر مملکت کی قومی سلامتی سے متعلق امور پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔
پڑوسی ملک یمن میں جاری لڑائی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عرب اتحادی فورسز حوثی ملیشیااور معزول صدر علی عبداللہ صالح کی وفادار فورسز کو چند دنوں میں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن وہ شہریوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے حوثیوں کے خلاف کوئی سریع الحرکت کارروائی نہیں کرنا چاہتی ہیں۔
سعودی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ یمن میں جنگ ان کے ملک کے لیے کوئی آپشن نہیں تھا لیکن اگر عرب اتحادی فورسز مداخلت نہ کرتیں تو صورت حال بہت ہی ابتر ہوتی۔
انھوں نے کہا کہ حوثی ملیشیا سے بین الاقوامی جہاز رانی اور پڑوسی ممالک کے لیے خطرہ پیدا ہوگیا تھا اور ان باغیوں کی کارروائیوں سے دہشت گرد گروپوں نے بھی فائدہ اٹھانا شروع کردیا تھا۔ اگر ہم زیادہ دیر تک انتظار کرتے تو خطرہ سعودی عرب کی حدود میں پہنچ جاتا۔
انھوں نے مصر کی کالعدم مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون کے (زیر اثر اور ملکیتی) میڈیا پر سعودی عرب اور مصر کے درمیان تعلقات کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کام کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔
شہزادہ محمد نے کہا کہ مصر اور سعودی عرب کے درمیان گہرے دوستانہ تعلقات استوار ہیں۔سعودی عرب اور مصر کے علاقے شمالی سیناء کو شاہ سلمان پل کے ذریعے ملانے کے لیے خصوصی ٹیمیں کام کررہی ہیں۔انھوں نے وضاحت کی کہ سعودی عرب اور مصر کے درمیان سمندری حدود کی حد بندی پر کوئی تنازع نہیں ہے۔
سعودی نائب ولی عہد نے شام کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی پیچیدہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سابق امریکی صدر براک اوباما نے جنگ زدہ ملک میں تبدیلیوں کے لیے بہت سے مواقع ضائع کردیے تھے۔ تاہم انھوں نےیہ بھی کہا کہ شام میں بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے سے بین الاقوامی بحران کی راہ ہموار ہوسکتی تھی۔