واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے امور سے متعلق امریکا کے خصوصی نمائندے برائن ہُک کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنائی گئی “انتہائی دباؤ” کی پالیسی نے ایران کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مذاکرات یا پابندیوں کے نتیجے میں معیشت کی تباہی کا سامنا کرنے میں سے کوئی ایک راستہ چُن لے۔
یہ بیان امریکی وزارت خارجہ کے اعلان کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔ اعلان میں کہا گیا کہ جوہری معاہدے میں ابھی تک بطور فریق موجود ممالک کو ایرانی جوہری پروگرام پر عائد پابندیوں میں جو استثنا حاصل تھا ، اس پر عمل درامد ختم کر دیا گیا ہے۔
بدھ کی شام ٹیلی فون کے ذریعے ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے برائن ہک کا کہنا تھا کہ “ہمارے دباؤ کے پیش نظر ایرانی رہ نماؤں کے سامنے دو راستے ہیں .. یا تو ہمارے ساتھ مذاکرات کریں اور یا پھر معیشت کے زمین بوس ہونے سے نمٹیں”۔
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اعلان کیا تھا کہ امریکا نے ایرانی جوہری پروگرام پر عائد پابندیوں کے حوالے سے استثنا پر عمل ختم کر دیا ہے۔ اس استثنا سے وہ ممالک مستفید ہو رہے تھے جو ابھی تک ایرانی جوہری معاہدے میں فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پومپیو کے بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ ایران میں تمام تر جوہری منصوبوں سے متعلق پابندیوں میں استثنا ختم ہو چکا ہے۔ انہوں نے یورینیم کی افزودگی کے پروگرام میں شامل دو سینئر ایرانی ماہرین پر پابندیاں لگانے کا اعلان بھی کیا۔
اس سے قبل امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یہ فیصلہ بھاری پانی سے کام کرنے والے اراک ریسرچ ری ایکٹرز، تہران ریسرچ ری ایکٹرز کے لیے افزودہ یوررینیم کی فراہمی اور استعمال شدہ ایندھن کی ایران سے باہر منتقلی کے سلسلے میں حاصل استثنا پر لاگو ہو گا۔
واضح رہے کہ اس فیصلے کا مطلب یہ ہوا کہ جو ممالک ایران کے ساتھ طے پائے گئے بین الاقوامی معاہدے سے مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ایران کے جوہری منصوبوں میں شامل ہیں ،،، اگر وہ ان منصوبوں سے دست بردار نہ ہوئے تو انہیں امریکی پابندیوں کا سامنا ہو گا۔ اولین درجے میں اس معاملے کا تعلق روس کے ساتھ ہے۔